قربانی اور اللہ کا قرب

ذی الحجہ

یہ مہینہ فریضۂ حج کی ادائیگی کا ہے۔ عشرہ ذی الحجہ کے فضائل احادیث میں مرقوم ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے یہ حدیث بیان کی ہے:
مَا مِنْ اَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيْھِنَّ اَحَبُّ اِلَي اللهِ مِنْ ھٰذِهِ الْاَيَّامِ الْعَشَرِ قَالُوْا يَا رَسُوْلَ اللهِ وَلَا الْجِھَادُ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ قَالَ وَلَا الْجِھَادُ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ اِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِه وَمَا لِه فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذٰلِكَ شَيْءٌ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں میں کئے گئے اعمال صالحہ جس قدر پسندیدہ ہیں ۔ دیگر دنوں میں نہیں ۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی (دوسرے دنوں میں ) اتنا پسندیدہ نہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا ہاں ! بجز اس شخص کے جو اللہ کی راہ میں اپنے نفس اور مال کے ساتھ نکلا پھر س کچھ اس کی راہ میں قربان کر دیا۔  (اخرجہ البخاری)  

 قربانی کا معنٰی و مفہوم
قربانی عربی زبان کے لفظ "قرب"سے نکلا ہے ،جس کے معنی ہیں "کسی شئے کے نزدیک ہونا” جبکہ شرعی اصطلاح میں :
ذبح حیوان مخصوص بینۃ القربۃ فی وقت مخصوصیعنی مخصوص وقت میں اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے کےلئے مخصوص جانور ذبح کرنا "قربانی "کہلاتا ہے۔(درِمختار،جلد9،ص520)(کتاب الاضمیہ)
پس عیدالاضحی وہ عید قربان ہے کہ بندے کو اللہ کے بہت قریب کر دیتی ہے اور بندے اور اللہ کے درمیان موجود سب دوریوں کو ختم کر دیتی ہے۔
قربانی کی ابتداء
قربانی کا عمل وہ عمل ہے کہ جس کی تاریخ صفحہ ہستی پر اتنی طویل ہے کہ شاید کسی اور عمل کی تاریخ اس قدر طویل نہیں۔ کچھ اعمال ہمیں کسی نبی کی شریعت سے ملے اور کچھ اعمال کسی اور نبی کی شریعت سے ملے، روزہ کا کہیں سے آغاز ہوا، نماز کا کسی اور جگہ سے آغاز ہوا، حج کا کسی اور جگہ سے آغاز ہوا، جہاد کا کہیں اور سے آغاز ہوا۔ ہر عمل کی تاریخ کی ایک ابتداء ہے لیکن قربانی کا عمل تاریخ کے اعتبار سے سب سے زیادہ تاریخ کا حامل ہے۔ قربانی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل وقابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوجاتی ہے، یہ سب سے پہلی قربانی تھی، حق تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے:
واتل علیہم نبأ ابنی آدم بالحق اذ قربا قرباناً فتقبل من احدہما ولم یتقبل من الآخر اور آپ اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجئے، جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لئے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی (المائدہ:183)
ان الفاظ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دیکھنے کی حد تک دونوں نے قربانی کے ذریعے اللہ کا قرب چاہا کیونکہ ’’قربا‘‘ اور ’’قربانا‘‘ دونوں کا مادہ ’’قرب‘‘ ہے۔ دونوں نے ایک ایسا عمل کیا جو اللہ کے قرب کا باعث تھا۔ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلّہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا عبادت ہونا حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہے اور اس کی حقیقت تقریباً ہرملّت میں رہی۔
حدیث مبارکہ میں ہےکہ :
عن زید بن ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ قال: قال اصحاب رسول اللّٰہﷺ: یا رسول اللّٰﷺہ! ما ہذہ الأضاحی؟ قال: سنة أبیکم ابراہیم علیہم السلام، قالوا: فما لنا فیہا یا رسول اللّٰہ؟ قال: بکل شعرة حسنة، قالوا: فالصوف؟ یا رسول اللّٰہ! قال: بکل شعرة من
 حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے صحابہ نے دریافت کیا کہ :یا رسول اللہﷺ! یہ قربانی کیا ہے؟ آپﷺنے فرمایا: تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی ان کی سنت) ہے،صحابہ نے عرض کیا کہ :پھر اس میں ہمارے لئے کیا (اجر وثواب)ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا:(جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی، انہوں نے عرض کیا کہ (دنبہ وغیرہ اگر ذبح کریں تو ان کی) اون (میں کیا ثواب ہے؟) فرمایا: کہ اون کے ہربال کے بدلے ایک نیکی الصوف حسنة(مشکوٰة:129)
قربانی کے اسرار و رموز
قربانی کے معنی تقرب حاصل کرنے کے ہیں ، ہر وہ چیز جس سے ایک بندۂ مومن اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرتا ہے قربانی کے مفہوم میں شامل ہے۔اللہ تعالی کی بارگاہ میں قربانی کرنا محبوب ومطلوب ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: 
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ تم نیکی کو نہیں پاسکتے یہاں تک کہ اس چیزسے خرچ کرو جس سے تم محبت کرتے ہو۔ (سورۃ ال عمران92)
 ایک مقام پر اللہ سبحانہ وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا:اورہم نے ہر امّت کے لیے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ تعالی کا نام لیں جو اللہ تعالی نے انہیں دے رکھے ہیں ، سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والے کوخوشخبری سنادیجئے(الحج34 )
 سورۂ حج میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ قربانی کا نہ گوشت اللہ تعالی کو پہنچتا ہے اور نہ خون لیکن تمہارا تقوی اس کی بارگاہ میں باریاب ہوتا ہے۔ (سورۃ الحج37)
 قربانی ضرورت مند انسانوں کی خدمت کا ایک ذریعہ ہے ، مویشی پالنے والے لوگ بھی اسی آس پر جانور پالتے ہیں کہ ایّام قربانی میں انہیں فروخت کرکے اپنی ضروریات پوری کریں گے ۔قربانی کے گوشت سے بھی غریبوں اور ناداروں کی مدد کی جاتی ہے ۔کھال سے بھی ناداروں کی مدد کا ایک ذریعہ ہے ۔ 
 قربانی کا دن و ہ دن ہے کہ جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح (کاارادہ کیا)، اور اللہ کا ان پر انعام ہوا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے عظیم ذبیحہ (جنتی مینڈھا) عطا فرمایا، اس لئے کہ اس میں ملّت ابراہیمی کے ائمہ کے حالات کی یاد دہانی ہے، اللہ کی اطاعت میں ان کے جان ومال کو خرچ کرنے اور انتہائی درجہ صبر کرنے کے واقعہ سے لوگوں کو عبرت دلاتا مقصود ہے، اس واقعہ میں ہمارے لئے صبر واستقلال، ایثار وغم خواری اور شجاعت وبہادری کی طرف بھی اشارہ ہے، کہ ایثار اور صبر حضرت ابراہیم، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہم السلام سے سیکھو۔
اس واقعہ (ذبح اسماعیل علیہ السلام) سے معلوم ہوا کہ ذبح کا اصل مقصد جان کو پیش کرنا ہے، اوریہی اس کی روح ہے تو یہ روح صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی؟ کیونکہ قربانی کی روح تو جان دینا ہے اور صدقہ کی روح مال دینا ہے، نیز صدقہ کے لئے کوئی دن مقرر نہیں مگر اس کے لئے ایک خاص دن مقرر کیا گیا ہے اور اس کا نام بھی یوم النحر اور یوم الاضحیٰ رکھا گیا ہے۔
 اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتا مگر خدا تعالیٰ کی رحمت دیکھئے، ان کو یہ گوارا نہ ہوا اس لئے حکم دیاکہ تم جانور کو ذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کردیا۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم بجا آوری اور اس کی طرف توجہ کی نیت سے اس جگہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا چاہا تھا۔اللہ تعالیٰ نے ان پر جو انعامات کیے ہیں، ان کی یاد دہانی ہوتی ہے، اور حج تمتع وقران کرنے والے پر یہ ہدی واجب ہے ،تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکرادا ہو کہ اس نے معاملے میں جاہلیت کے وبال کو دور کردیا۔ قربانی کا معنی ہے:
 ما یتقرب بہ الی الله ، یقال: قربت اللهیعنی قربان اس چیز کو کہتے ہیں،جس کے ساتھ انسان خدا تعالیٰ  کا قرب ڈھونڈتا ہے، چنانچہ کہتے ہیں قربت لله قرباناً چونکہ انسان قربانی سے قرب الٰہی کا طالب ہوتا ہے،اس لئے اس فعل کا نام بھی قربانی ہوا۔ کائنات کی ہر چھوٹی چیز اپنی سے بڑی چیز پر فدا اور قربان ہوتی دکھائی دیتی ہے، تمام جمادات نباتات کے لئے، تمام نباتات حیوانات کے لئے اور حیوانات انسان کے لئے قربانی دیتے ہیں۔
اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنے اپنے وقتوں میں جانوروں کی قربانی کرنا توریت سے ثابت ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے گھوڑوں کی قربانی کی ہے، اسی طرح دوسری قوموں میں بھی اس کا ثبوت ملّتا ہے، کسی نے اس کو ”بلیدان“ کے نام سے یاد کیا ہے ، کسی نے قربانی کو نذراور کسی نے بھینٹ کے نام سے پکارا ہے۔
آج کل بعض پڑھے لکھے جاہلوں سے یہ اعتراض سنا جاتا ہے کہ قربانی کیا ہے؟ یہ قربانی (معاذ اللہ)  خواہ مخواہ رکھی گئی ہے، قربانی شریعت کو مقصود نہیں بلکہ یہ تو خلاف عقل ہے کہ ایک دن میں اتنے جانوروں پر ظلم کرکے ان کو ذبح کیا جاتاہے، لاکھوں روپے خون کی شکل میں نالیوں میں بہائے جاتے ہیں، یہ تو معاشی اعتبار سے بھی نقصان ہے کہ کتنے جانور کم ہوجاتے ہیں، لہذا قربانی کے بجائے یہ کرنا چاہئے کہ وہ لوگ جو غریب ہیں جو بھوک سے بلبلا رہے ہیں، قربانی کرکے گوشت تقسیم کرنے کے بجائے اگر وہ پیسے ان غرباء ومساکین کو دیدیئے جائیں تو ا ن کی ضروریات بہتر طریقے سے پوری ہوسکتی ہیں۔
بات یہ ہے کہ قربانی کی صورت میں ایک تعلیم ہے، جسے عالم اور جاہل سب جانتے ہیں، وہ تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کے خون اور گوشت کی پرواہ نہیں ، بلکہ وہ ہمیں سکھانا چاہتا ہے کہ تم بھی اللہ کے حضوروقت آنے پر اپنی جان، مال ، عزت آبرو اس طرح قربان کرو، جس طرح کہ یہ جانور اللہ کے نام پر تمہارے ہاتھوں اپنی گردن کٹوا رہا ہے۔اپنے جانور کو اللہ کے حکم پر قربان کرنا یہ بھی ہمارا ہی قربان ہونا ہے کہ اپنے بدلے اپنا قیمتی جانور قربان کررہے ہیں۔یہ کہنا کہ جانوروں کو عید الاضحی پر قربان اس لئے نہ کریں کہ ہمارا ذبح کرنا رحم کے خلاف ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے اس طرح نہ کرنے سے کیا وہ جانور ہمیشہ زندہ رہیں گے؟ اگر ان کو ذبح نہ کیا جاوے توکیا وہ خود بیمار ہوکرنہ مریں گے؟ 
یہ کہنا کہ قربانی خود شریعت میں مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود غرباء کی امداد ہے اور ابتداء اسلام میں لوگوں کے پاس نقد کم تھا، مویشی زیادہ تھے، اس لئے یہ طریقہ اختیارکیا گیا کہ جانور کو ذبح کرکے غرباء کو گوشت دیدیاجاتا، چونکہ اس زمانے میں نقد بھی موجود ہے، غلّہ بھی موجود ہے، پس آجکل بجائے قربانی کے نقد روپئے سے غرباء کی امداد کرنی چاہئے۔
جواب یہ ہے کہ صرف یہ سمجھنا کہ قربانی کی حکمت غرباء کی مدد کرنا ہے ،یہ صحیح نہیں۔ بلکہ مقصود تو تعمیل حکم ہے، کیونکہ اگر یہ حکمت مقصود ہوتی تو اس کی کیا وجہ ہے کہ غرباء کواگر قربانی کا گوشت دیا جائے تو واجب ادا ہو، اوراگر زندہ جانور کسی غریب کو دے دیں تو واجب ادا نہ ہو۔کیا پہلے مسلمانوں پر نقد کی وسعت کبھی نہ  ہوئی تھی؟ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جس وقت قیصر وکسریٰ کے خزانے فتح کئے ہیں تو اس وقت مسلمانوں کے پاس نقد سونا اور چاندی اس قدر تھا کہ آج کل تو اس کا عشر عشیر بھی نہ ہوگا، پھر اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ بات کیوں نہ سوجھی جو آجکل نام نہاد روشن خیالوں کو سوجھی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بجائے قربانی کے نقد امداد کو کیوں نہ اختیار کیا ؟
رہی بات قربانی کا خلاف العقل ہونا تو اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ دنیا کی عارضی عدالت میں ایک جج اگر کسی مجرم کو سزا ئے موت دے اور مجرم یہ کہے کہ یہ سزا تو عقل کے خلاف ہے تو کیا وہ جج اس کی اس بات کی سماعت کرے گا؟ ہرگز نہیں- بلکہ وہ کہے گا کہ قانون پر تمہاری عقل کی حکومت نہیں، بلکہ قانون، عقل پر حاکم ہے- اور اس کے اس جواب کو سب عقلاء تسلیم کرتے ہیں
افسوس یہ ہے کہ قانون الٰہی کو آجکل کے مسلمان اپنی عقل پر حاکم نہیں مانتے بلکہ اس کو اپنی عقل کے تابع کرنا چاہتے ہیں-ورنہ قانون الٰہی تو بالکل عقل کے مطابق ہے، بشرطیکہ عقل سلیم ہو، یہ کیا ضروری ہے کہ ہر شخص کی عقل میں شریعت کی حکمتیں آجایا کریں، آخر پارلیمنٹ کے اراکین جو قوانین تجویز کرتے ہیں، کیا ہر عامی کی عقل اس کے مصالح تک پہنچ پاتی ہے؟ ہر گز نہیں- بلکہ اس کے مصالح وحکم کو خاص خاص لوگ ہی سمجھتے ہیں، پھر آج قانون الٰہی کی حکمتوں اور مصالح کو ہر شخص اپنی عقل سے کیوں معلوم کرنا چاہتا ہے اور یہاں یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ قانون الٰہی عقل کے مطالق ضرور ہے مگر ہماری عقلیں اس کے مصالح سمجھنے سے قاصر ہیں، کیونکہ قانون پر عقل حاکم نہیں، بلکہ عقل اس کی ماتحت اور اس کے تابع ہے، قربانی کے خلاف پروپیگنڈہ عقل کے خلاف ہے، یہ پروپیگنڈہ وہ لوگ کرتے ہیں جو دین اسلام کی روح سے ناواقف ہیں۔ 
یاد رکھنا چاہئے کہ دین اسلام کا اصل جوہر ”اتباع کامل“ ہے، جب تک انسان میں اتباع کا جذبہ نہیں ہو گا، اس وقت تک انسان ، انسان نہیں بن سکتا- آجکل معاشرے میں جتنی بدعنوانیاں، مظالم، نافرمانیاں، اورتباہ کاریاں پھیلی ہوئی ہیں، وہ درحقیقت اس بنیاد کو فراموش کرنے کی وجہ سے ہیں کہ انسان اپنی عقل کے پیچھے چلتا ہے، اللہ کے حکم کی اتباع نہیں کرتا۔

اپنی رائے دیجئے

Tahreem Umer's Blog

A Passion Of Healing Souls

ارتقاءِ حيات

انسانی شعور کو جِلا بخشنے کی مبہم کوشش

Moneeb Junior

Journalist, Android Application Developer and Web Designer. My website is best Platform to find out Amazing information & Career guide in the interviews of World's Expert Professionals.

Urdu Islamic Downloads

Download Islamic Audio Video Software Documents - Read Best Islamic Books

اردو سائبر اسپیس

Promotion of Urdu Language and Literature

سائنس کی دُنیا

اُردو زبان کی پہلی باقاعدہ سائنس ویب سائٹ

~~~ اردو سائنس بلاگ ~~~ حیرت سرائے خاک

سائنس، تاریخ، اور جغرافیہ کی معلوماتی تحقیق پر مبنی اردو تحاریر....!! قمر کا بلاگ

BOOK CENTRE

BOOK CENTRE 32 HAIDER ROAD SADDAR RAWALPINDI PAKISTAN. Tel 92-51-5565234 Email aftabqureshi1972@gmail.com www.bookcentreorg.wordpress.com, www.bookcentrepk.wordpress.com

اردوادبی مجلّہ اجرا، کراچی

Selected global and regional literatures with the world's most popular writers' works

Best Urdu Books

Online Free Islamic Books

ISLAMIC BOOKS HUB

Free Authentic Islamic books and Video library in English, Urdu, Arabic, Bangla Read online, free PDF books Download , Audio books, Islamic software, audio video lectures and Articles Naat and nasheed

عربی کا معلم

وَهٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ

دیوبند آن لائن

www.deobandonline.com

Taleem-ul-Quran

Khulasa-e-Quran | Best Quran Summary

Al Waqia Magazine

امت مسلمہ کی بیداری اور دجالی و فتنہ کے دور سے آگاہی

TowardsHuda

The Messenger of Allaah sallAllaahu 3Alayhi wa sallam said: "Whoever directs someone to a good, then he will have the reward equal to the doer of the action". [Saheeh Muslim]

آہنگِ ادب

نوجوان قلم کاروں کی آواز

آئینہ...

توڑ دینے سے چہرے کی بدنمائی تو نہیں جاتی

بے لاگ :- -: Be Laag

ایک مختلف زاویہ۔ از جاوید گوندل

آن لائن قرآن پاک

اقرا باسم ربك الذي خلق

منہج اہل السنة

اہل سنت والجماعۃ کا منہج

waqashashmispoetry

Sad , Romantic Urdu Ghazals, & Nazam

!! والله أعلم بالصواب

hai pengembara! apakah kamu tahu ada apa saja di depanmu itu?

Life Is Fragile

I don’t deserve what I want. I don’t want what I have deserve.

Mushk Pur مشک پور

زین کا بلاگ

I Think So

What I observe, experience, feel, think, understand and misunderstand

Muhammad Altaf Gohar | Google SEO Consultant, Pakistani Urdu/English Blogger, Web Developer, Writer & Researcher

افکار تازہ ہمیشہ بہتے پانی کیطرح پاکیزہ اور آئینہ کیطرح شفاف ہوتے ہیں

بے قرار

جانے کب ۔ ۔ ۔

سعد کا بلاگ

موت ہے اک سخت تر جس کا غلامی ہے نام

دائرہ فکر... ابنِ اقبال

بلاگ نئے ایڈریس پر منتقل ہو چکا ہے http://emraaniqbal.comے

I am woman, hear me roar

This blog contains the feminist point of view on anything and everything.

تلمیذ

Just another WordPress.com site

کچھ لکھنے کی کوشش

کچھ لکھنے کی کوشش

کائنات بشیر کا بلاگ

کہنے کو بہت کچھ تھا اگر کہنے پہ آتے ۔۔۔ اپنی تو یہ عادت ہے کہ ہم کچھ نہیں کہتے

Muhammad Saleem

Pakistani blogger living in Shantou/China

MAHA S. KAMAL

INTERNATIONAL RELATIONS | POLITICS| POLICY | WRITING

Pressure Cooker

Where I brew the stew to feed inner monsters...

My Blog

Just another WordPress.com site

PIECEMEAL

"Religion is sincerity" Prophet Muhammad (pbuh)...To get things organized is just one step away from betterment. "Well begun is half done"...Aristotle

ii85 - Urdu Novels & Stories

Urdu Stories & Novels