حجۃ الوداع کی تفصیل حضرت جابر کی زبانی:03
میں تھیں اور ان سے محمد بن ابوبکر پیدا ہوئے۔
یہ غسل نظافت یعنی ستھرائی کے لئے ہوتا ہے طہارت یعنی پاکی کے لئے نہیں، اسی لئے
نفاس والی عورت کو تیمم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا اور یہی حکم حائضہ کا بھی ہے نیز
ان کو آپ ﷺکے اس حکم کہ ” اور پھر
احرام باندھ لو یعنی احرام کی نیت کرو اور لبیک کہو” سے یہ بات ثابت ہوتی
ہوتی ہے کہ نفاس والی عورت کا احرام صحیح ہوتا ہے ۔ چنانچہ اس مسئلہ پر تمام علماء
کا اتفاق ہے۔
کریم ﷺنے مسجد ذوالحلیفہ میں نماز پڑھی)کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺنے احرام کی سنت دو رکعت نماز پڑھی، اس بارےمیں
مسئلہ یہ ہے کہ اگر میقات میں مسجد ہو تو مسجد ہی میں یہ دو رکتعتیں پڑھنا زیادہ
بہتر اور اولیٰ ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ پڑھ لے تو بھی
کوئی مضائقہ نہٰں، نیز اوقات مکروہہ میں یہ نماز نہ پڑھ جائے ، علماء یہ بھی لکھتے
ہیں کہ تحیۃ المسجد کی طرح فرض نماز بھی اس نماز کے قائم مقام ہو جاتی ہے۔
یہ جملہ درآس پہلے جملہ لسنا ننوی الا الحج ہم حج ہی کی نیت کیا کرتے تھے) کی
تاکید کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ان جملوں کی وضاحت یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں یہ
معمول تھا کہ لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو بڑا گناہ سمجھتے تھے ، چنانچہ اس
وقت آنحضرت ﷺنے اس کا رد کیا اور حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا حکم فرمایا اس کی
تفصیل آگے آئے گی۔
ہم ذی طویٰ میں اترے اور رات کو وہیں قیام کیا اور پھر ١٤ذی الحجہ کو نہا دھو کر
ثنیہ علیا کی طرف سے یعنی جانب بلند سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور پھر اباب
السلام کی جانب سے مسجد حرام میں آئے اور وہاں آکر تحیۃ المسجد کی نماز نہیں پڑھی
کیونکہ بیت اللہ کا طواف ہی وہاں کا تحیۃ ہے۔
بار رمل کیا اور 4مرتبہ آپ نے تیزرفتار سے طواف کیا )اس بارے میں یہ تفصیل جان لینی چاہئے کہ خانہ کعبہ کے
گرد مطاف پر 7 چکر کرنے کو طواف کہتے ہیں۔ کل طواف کے ساتھ چکر ہوتے ہیں اور ہر
چکر حجر اسود سے شروع ہو کر حجر اسود ہی پر ختم ہوتا ہے ہر چکر کو اصطلاح شریعت
میں ” شوط” کہا جاتا ہے۔
کرنا چاہئے اور پہلوانوں کی طرف کندھے ہلا ہلا کر ، اکڑ کر اور کچھ تیزی کے ساتھ
قریب قریب قدم رکھ کر چلنا ” رمل” کہلاتاہے ، طواف کے باقی 4 چکروں میں
آہستہ آہستہ یعنی آپ نی معمولی چال کے ساتھ چلنا چاہئے۔
یعنی اکڑ کر تیز تیز چلنے کی وجہ یہ ہے کہ جب نبی کریم ﷺعمرۃ القضاء کے لئے مکہ
تشریف لائے تو مشرکین نے آپ کو دیکھ کر
کہا کہ تپ یثرب یعنی مدینہ کے بخار نے ان کو بہت ضعیف وسست کردیا ہے لہٰذا آنحضرت ﷺنے
مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس طرح چل کر اپنی قوت وچستی کا اظہار کرو۔ وہ وقت تو گزر
گیا مگر اس علّت اور وجہ کے دور ہوجانے کے بعد بھی یہ حکم باقی رہا چنانچہ یہ
طریقہ اب تک جاری ہے۔
کیا گیا ہے لیکن طواف کے وقت اضطباع بھی مسنون ہے چنانچہ دوسری احادیث میں اس کا
ذکر موجود ہے۔
کاندھے سے اتار کر اور داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کاندھے پر ڈال لیا جائے
اضبطاع کہلاتا ہے چادر کو اس طرح اورھنے کا حکم بھی اظہار قوت کے لئے دیا گیا تھا
ور یہ حکم بھی بعد میں باق رہا۔
ابراہیم ” کے معنی ہیں حضرت ابراہیم کے پاؤں کے نشان بن گئے تھے جو آج تک
قائم ہیں۔
پتھر ہے کہ جب حضرت ابراہیم آپ نے فرزند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو دیکھنے مکہ
آتے تھے تو اونٹ سے اسی پتھر پر اترتے تھے اور جب جانے لگتے تو اسی پتھر پر کھڑے
ہو کر سوار ہوتے اس پتھر پر ان کے دونں مبارک قدموں کا نشان بن گیا ہے! بہر کیف یہ
پتھر اب خانہ کعبہ کے آگے ایک حجرے میں رکھا ہوا ہے، آنحضرت ﷺنے طواف سے فارغ ہو
کر اسی مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی یہ دو رکعت نماز اگرچہ اسی جگہ
کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے لیکن جائز حرم میں ہر جگہ پڑھنا ہے چاہے مسجد حرام میں
پڑھی جائے اور چاہے مسجد حرام سے باہر نیز ہر طواف کے بعد یہ نماز حضرت امام اعظم
ابو حنیفہ کے نزدیک واجب ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے ہاں سنت ہے۔
الکافرون کی قرات کی اس عبادرت سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺنے قل ہواللہ
احد پہلی رکعت میں پڑھی اور قل یا ایہا الکافرون دوسری رکعت میں جب کہ اس طرح سورہ
مقدم پر سورہ متاخر کی تقدیم یعنی بعد کی سورت کو پہلے اور پہلے کی سورت کو بعد
میں پڑھنے کی صورت لازم آتی ہے، اس لئے علماء نے اس کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ
حدیث میں اس بارےمیں جو عبارت نقل کی گئی ہے اس میں حرف واؤ صرف اظہار جمع کے لئے
یعنی آپ کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ آپ ﷺنے ان دونوں رکعتوں میں یہ دونوں سورتیں پڑھیں،
اب یہ کہ ان میں سے کون سی پہلی رکعت میں پڑھی اور کون سی سورت دوسری رکعت میں ؟ اس
کی وضاحت نہ اس سے مقصود ہے اور نہ یہاں اس کی وضاحت موجود ہی ہے اس توجیہ کے پیش
نظر کوئی اشکال پیدا نہیں ہوسکتا۔ پھرطیبی نے اس عبارت میں ان دونوں سورتوں کے ذکر
کی مذکورہ ترتیب کے بارےمیں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ قل ہواللہ احد، اللہ تعالیٰ کی
وحدانیت کے اثبات واظہار کے لئے ہے اور قل یا ایہا الکافرون شرک سے بیزاری کے
واسطے ہے، اس لئے توحید کی عظمت شان اور اس کی سب سے زیادہ اہمیت کی بناء پر اس
سورت کو پہلے ذکر کیا جس سے توحید کا اثبات ہوتا ہے۔
کو اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ اس میں پہلے قل یا ایہا الکافرون ذکر ہے اور بعد میں
قل ہواللہ احد کا اس صورت میں بات بالکل ہی صاف ہوجاتی ہے۔
صفا اور مروہ کے درمیان سعی 7 بار کی، بایں طور کہ صفا سے مروہ تک 1بار، مروہ سے
صفا تک دوسری بار، اسی طرح آپ ﷺنے 7پھیرے
کئے اس طرح سعی کی ابتداء تو صفا سے ہوئی اور ختم مروہ پر ہوئی جیسا کہ حدیث کے
الفاظ یہاں تک کہ جب آپ ﷺنے مروہ سعی کا
اختتام کیا سے بھی یہی ثابت ہوتاہے۔
سعی یعنی صفا مروہ کے درمیان پھیرے کرنا واجب ہے اس کی اصل یہ ہے کہ حضرت
اسمٰعیل علیہ السلام جن دنوں چھوٹے تھے تو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش کو
گئیں جب نشیب میں پہنچیں تو حضرت اسمٰعیل ان کی نظر سے پوشیدہ ہوگئے وہ صفا اور
مروہ پر چڑھ کر ان کو دیکھنے کے لئے ان دونوں کے درمیان پھیرے کرتی تھیں، چنانچہ
یہ سعی انہیں کی سنت ہے جسے آنحضرت ﷺنے پورا کیا اب صفاومروہ کے درمیان چونکہ مٹی
بھرگئی ہے اس لئے وہ نشیب باقی نہیں رہا البتہ وہاں نشان بنادیئے گئے ہیں اور حضرت
ہاجرہ کی سنت کو پورا کرنے کے لئے وہاں دوڑتے پھرتے ہیں۔
جاری ہے