ایمانیات
1-اللہ تعالیٰ پر ایمان
2-فرشتوں پر ایمان
3-کتابوں پر ایمان
4-رسولوں پر ایمان
5-یوم آخرت پرایمان
6-تقدیر پر ایمان(چاہے اچھی ہو یا بری)
دین اسلام جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے عقیدے اور شریعت کا نام ہے اور گزشتہ مضامین میں ہم دین اسلام کے بعض شرائع ،یعنی احکام کی جانب اشارہ اور اس کے ان ارکان کا جو ان شرائع اور احکام کی بنیاد ہیں،تذکرہ کر چکے ہیں۔اب ہم ایمانیات کا ذکر کریں گے۔
ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ،اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں ،اس کے رسولوں،آخرت کے دن اچھی ہو یا بری تقدیرکوبرضاو رغبت تسلیم کیا جائے۔قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کی سنت میں ان بنیادوں پردلائل موجودہیں۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
لَّيْسَ ٱلْبِرَّ أَن تُوَلُّوا۟ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ ٱلْبِرَّ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلْكِتَٰبِ وَٱلنَّبِيِّنَ
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو،بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ جو ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کےدن پر اور فرشتوں پر اور سب کتابوں پر اور نبیوں پر۔ (سورۂ البقرۃ،آیت 177)
تقدیر کے متعلق ارشاد ہے:
إِنَّا كُلَّ شَىْءٍ خَلَقْنَٰهُ بِقَدَرٍۢ ﴿49﴾وَمَآ أَمْرُنَآ إِلَّا وَٰحِدَةٌۭ كَلَمْحٍۭ بِٱلْبَصَرِ ﴿50﴾
ہم نے ہر چیز ایک (مقرر)اندازے کے مطابق پیدا کی ہے اور ہمارا حکم تو آنکھ جھپکنے کی طرح ایک بات ہی ہوتی ہے۔(سورۂ القمر،آیت 49-50)
احادیث میں موجود ہےکہ نبی ﷺ نے ایمان کے متعلق حضرت جبرائیل علیہ السلام کے سوال کے جواب میں فرمایا:
(ایمان)یہ ہے کہ تو اللہ پر،اس کے فرشتوں پر،اس کی کتابوں پر،اس کے رسولوں پر،آخرت کے دن پر اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان لائے۔ (صحیح مسلم،الایمان)
اللہ تعالیٰ پر ایمان
اللہ تعالیٰ پر ایمان چار امور پر مشتمل ہے:
اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان: اللہ تعالیٰ کے وجود پر عقل،فطرت ،حس اور شریعت سبھی چیزیں دلالت کرتی ہیں۔
وجود باری تعالیٰ پر فطری دلائل: ہر مخلوق کا اپنے خالق پر ایمان کی ھالت میں پیدا ہونا ایک ایسا فطری اورپیدائشی وصف ہے جو غور و فکر اور علم کے بغیر اس کی جبلت میں شامل ہے،لہذا کوئی فرد فطرت کے اس تقاضے سے ہرگز نہیں پھرتا مگر یہ کہ کوئی غلط ماحول اس کے دل پر ایسے نقوش بٹھا دے جو اسے اس کی فطرت سے پھیر دیں۔جیسا کہ نبیﷺکے اس ارشاد سے واضح ہے:
ما من مولود الا یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ
ہربچہ فطرت ہی پر پیدا ہوتا ہے،پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری،الجنائز)
وجود باری تعالیٰ پر عقلی دلائل: تمام مخلوقات س پہلے ان کے خلاق اور موجد کا موجود ہونا شرط لازم ہے کیونکہ کسی فرد یا کسی چیز کا از خود ،اتفاقی یا حادثاتی طور پر وجود میں آ جانا قطعا نا ممکن ہے۔اور وہ اس لیے کہ کوئی چیز اپنے آپ کوخود پیدا نہیں کر سکتی کیونکہ وہ اپنے وجود سے پہلے معدوم ہوتی ہے اور جو چیز معدوم ہو وہ خالق کس طرح ہوسکتی ہے؟
اسی طرح کسی چیز کا اچانک اتفاقیہ یا حادثاتی طور پر وجودپا جانا بھی ناممکن ہے کیونکہ ہر حادث ،یعنی نئی چیز کے لیے کسی محدث ،یعنی وجود بخشنےوالے کا موجود ہونا لازمی ہے۔مزید برآں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس حادث کاوجودایک مستقل دلفریب نظام،مناسب ترتیب ،اسباب و مسببات اور کائنات کی بعض چیزوں کے درمیان مضبوط باہمی تعلق و ارتباط پر منحصر ہونا،اس بات کی مکمل نفی کرتا ہے کہ اس کا وجود محض ایک حادثہ یا اتفاق ہے ۔اگر موجودات اپنی اصل میں کسی نظم کی پابند ہونے کی بجائے دفعتا ایک اتفاق کا نتیجہ ہوتیں تو اب تک ان کی بقا اور ارتقاء یعنی بتدریج نشونما کیوں کر باقاعدہ منظم پیمانے پر ہوتی؟
جب ان مخلوقات کا خودزاد ہونا یا اچانک اتفاقی اور حادثاتی طور پر پیدا ہو جانا محال ہے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ ان سب چیزوں کا کوئی موجد و خالق ضرور ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سارے جہانوں کاپروردگارہے۔اللہ تعالیٰ نے اس عقلی اور قطعی دلیل کا حوالہ خود سورہ طور میں یوں دیا ہے:
أَمْ خُلِقُوا۟ مِنْ غَيْرِ شَىْءٍ أَمْ هُمُ ٱلْخَٰلِقُونَ
کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا ہو گئے ہیں یا وہ خود خالق ہیں (سورۂ الطور،آیت 35)
یعنی وہ بغیر خالق کے پیدا نہیں ہوئے اور نہ انہوں نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا ہے،پس ثابت ہوا کہ ان کا کوئی بنانےوالاضرور موجود ہے،اور وہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب حضرت جبیر بن معطم ؓ نے رسول اللہﷺ کو سورہ طور کی یہ آیات تلاوت کرتے ہوئے سنا:
أَمْ خُلِقُوا۟ مِنْ غَيْرِ شَىْءٍ أَمْ هُمُ ٱلْخَٰلِقُونَ ﴿٥٣35﴾أَمْ خَلَقُوا۟ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ ۚ بَل لَّايُوقِنُونَ ﴿٦٣36﴾أَمْ عِندَهُمْ خَزَآئِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ ٱلْمُصَۣيْطِرُونَ ﴿37٧٣﴾
کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا ہو گئے ہیں یا وہ خود خالق ہیں یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کوبنایا ہے نہیں بلکہ وہ یقین ہی نہیں کرتے کیا ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے ہیں یا وہ داروغہ ہیں (سورۂ الطور،آیت 35تا37)
تو اس وقت حالت کفر میں ہونے کے باوجود وہ بے ساختہ بول اُٹھے:
میرا دل شکستہ،بدحال اور اڑا اڑا سا ہو گیا۔اور یہ پہلی بار ہوا جب ایمان نے میرے دل میں گھر کر لیا تھا۔ (صحیح بخاری،المغازی)
مزید وضاحت کے لیے ایک مثال پیش خد مت ہے:
اگر کوئی شخص آپ کو کسی ایسے مضبوط بلند و بالا محل کی خبر دے جس میں چاروں طرف باغات ہوں،ان کے درمیان نہریں بہہ رہی ہوں،تخت پوش لگے ہوں ،نرم و نازک بچھونے بچھے ہوئے ہوں اور تزئین و آرائش کے ہر سامان سے محل خوب سجا ہوا ہو،پھر وہ شخص یہ کہے کہ یہ محل اور اس میں موجود سارا سامان بغیر کسی بنانے والے کے خودبخود وجود میں آگیاتو آپ نہ صرف پوری قوت سے اس کا انکار کر دیں گے اوراسے جھٹلائیں گے بلکہ اسے پاگل قرار دیں گے۔
کیا اس مثال کے بعد بھی اس بات کا کوئی جواز ہے کہ وسیع کائنات زمین،آسمان،سورج،چاند،ستارے اور سیاروں کی بےمثال گردشوں کے سلسلے ،صحرا وکوہسار سمندر اور ندی نالے محض ایک اتفاق یا حادثے کی بنا پر خودبخود وجود میں آگئےہیں؟
وجود باری تعالیٰ پر شرعی دلائل: بلاشبہ تمام آسمانی کتابیں اللہ تعالیٰ کے وجود پر شاہد ہیں اور مخلوق کی مصلحتوں کےسلسلے میں جو احکام ان کتب سماویہ میں آئے ہیں،وہ سب اس حقیقت عظمی کی دلیل ہے کہ بلاشبہ یہ کتابیں ایک نہایت دانا ،حکیم اور اپنی مخلوق کی مصلحتوں کو خوب جاننے والے پرودگار کی طرف سے ہیں اور ان آسمانی کتابوں میں جن تکوینی باتوں کی امر واقع نے تصدیق کی ہے وہ بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ بلاشبہ یہ تمام چیزیں ایک ایسے رب کی طرف سےہیں جو ان تمام چیزوں کی ایجاد پر پوری قدرت رکھتا ہے جن کے بارے میں اس نے خبر دی ہے۔
وجود باری تعالیٰ پر حسی دلائلحسی دلائل دو قسم کے ہیں:
1- ہم دعا کرنے والوں کی دعاؤں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھتے اور سنتے ہیں،اسی طرح انتہائی دکھ اور تکالیف میں مبتلا لوگوں کی فریاد رسی بھی کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے۔یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی ہستی پر دلالت کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَنُوحًا إِذْ نَادَىٰ مِن قَبْلُ فَٱسْتَجَبْنَا لَهُۥ
اور نوح کو جب اس نے اس سے پہلے پکارا پھر ہم نے اس کی دعا قبول کر لی (سورۂ الانبیاء،آیت 76)
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَٱسْتَجَابَ لَكُمْ
اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے ،پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سن لی۔(سورۂ الانفال،آیت9)
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے۔انہوں نے فرمایا:
جمعہ کے دن ایک اعرابی اس وقت (مسجد نبوی میں)داخل ہوا جب نبی ﷺ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے،اس نے عرض کی!اے اللہ کے رسول!(بارش نہ ہونے کی وجہ سے )تمام مال و متاع تباہ ہو گیا اور اہل و عیال بھوکے ہیں،اللہ تعالیٰ سےہمارے لیے(بارش کی)دعا فرمائیں۔آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی۔چاروں طرف سے پہاڑوں کے مانند بادل امڈ آ ئے ،آپ اپنے منبر سے نیچے بھی نہ اُتر پائے تھے کہ میں نے بارش کی بوندیں آپ کی داڑھی مبارک پرپڑتےدیکھیں۔دوسرے جمعہ کو وہی یا کوئی دوسرا اعرابی کھڑا ہوا اور عرض کی:اے اللہ کے رسول !(بارش کی کثرت سے)ہمارے گھر منہدم ہو گئے ہیں۔اور مال و متاع (پانی میں) غرق ہو گیا ہے،آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے (بارش تھمنے) کی دعا فرمائیں،رسول اللہ ﷺ نے دست مبارک اٹھائے اور یہ دعا فرمائی:
اللھم حوالینا ولا علینا(اے اللہ !ہمارے اردگرد نازل فرما،ہم پر نہ برسا)
پھر آپ نے جوں ہی ادھر ادھر اطراف میں اشارہ فرمایا ،بادلوں میں شگاف پڑ گیا اور وہ فورا چھٹ گئے۔ (صحیح بخاری،الجمعۃ،باب الاستسقاء فی الخطبہ یوم الجمعہ)
2- بہت سے لوگوں نے انبیاء علیہم السلام کی نشانیوں کو جنہیں معجزات کہا جاتا ہے خود دیکھا ہے یا معتبرذرائع سے ان کے بارے میں سنا ہے۔ان رسووں کے بھیجنے والے اللہ
تعالیٰ کی ذات کے وجود پر زبردست دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔معجزے انسانی فہم سے بالا تر ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنےرسولوں کی تائید و نصرت کے لیے جاری فرمایا تھا۔
معجزات کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
1- پہلی مثال حضرت موسی علیہ السلام کے اس معجزے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سمندر پر لاٹھی مارنےکاحکم فرمایا،جونہی موسی علیہ السلام نے فرمان الہی کی تعمیل کی ،سمندر میں بارہ خشک راستے بن گئے ،اور ان راستوں کے درمیان پانی پہاڑوں کے مانند کھڑا ہو گیا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
فَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ أَنِ ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْبَحْرَ ۖ فَٱنفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍۢ كَٱلطَّوْدِ ٱلْعَظِيمِ
پھر ہم نےموسیٰ کو وحی کی کہ اپنی لاٹھی کو سمندر پر مار پھر پھٹ گیا پھر ہر ٹکڑا بڑے ٹیلے کی طرح ہو گیا (سورۂ الشعراء،آیت 63)
2- دوسری مثال حضرت عیسی علیہ السلام کے مردوں کو زندہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں قبروں سے باہر نکالنے والے معجزے کی ہے،قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کی بابت منقول ہے:
وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ
اور میں زندہ کرتا ہوں مُردوں کو اللہ تعالٰٰ کے حکم سے۔ (سورۂ آل عمران،آیت 49)
اور ایک مقام پر یوں ارشاد ہوا ہے:
وَإِذْ تُخْرِجُ ٱلْمَوْتَىٰ بِإِذْنِى
اور جب تم مُردوں کو نکال کر کھڑا کر لیتے تھے میرے حکم سے۔ (سورۂ المائدہ،آیت 110)
3- تیسری مثال حضرت محمد ﷺکے معجزہ شق القمر(چاندکے دو ٹکڑے ہو جانے)کی ہے۔جن قریش مکہ نےآپ سے معجزے کا مطالبہ کیا تو آپ نے چاند کی طرف اشارہ فرمایا۔وہ دو حصوں میں پھٹ گیا اور لوگوں نے اس کاسرعام مشاہدہ کیا۔اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا
ہے:
ٱقْتَرَبَتِ ٱلسَّاعَةُ وَٱنشَقَّ ٱلْقَمَرُ ﴿1﴾وَإِن يَرَوْا۟ ءَايَةًۭ يُعْرِضُوا۟ وَيَقُولُوا۟ سِحْرٌۭ مُّسْتَمِرٌّۭ ﴿2﴾
قیامت قریب آ پہنچی اور چاند شق ہوگیا اور اگر (کافر) کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک ہمیشہ کا جادو ہے (سورۂ القمر،آیت1-2)ان تمام معجزات و علامات کا تعلق محسوسات ،یعنی سننے اوردیکھنے سے ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے رسولوں کی تائید و نصرت کے لیے جاری فرمایا تھا،یہ تمام معجزات اللہ تعالیٰ کی ہستی پر دلالت کرتےہیں۔
اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان: اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان لانے کا مطلب ہے کہ وہ اکیلا اور تن تنہاپروردگارہےہے۔(نہ)اس کا کوئی شریک ہے نہ مددگار۔رب سے مراد وہ ہستی ہے جو پوری مخلوق اور بادشاہی کی مالک ہو،اور حکم بھی صرف اسی کا چلتا ہو،پس اللہ تعالیٰ کے علاوہ (نہ) کوئی دوسرا خالق ہے نہ کوئی دوسرا مالک ہے،اور حاکم مطلق بھی وہی ہے۔اس کے علاوہ کوئی دوسرا حاکم نہیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ
اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا(سورۂ الاعراف،آیت 54)
اور ایک مقام پر ارشاد ہوا:
ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ ٱلْمُلْكُ ۚ وَٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ
یہی الله تمہارا رب ہے اسی کی بادشاہی ہے اور جنہیں تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ ایک گھٹلی کے چھلکے کے مالک نہیں(سورۂ فاطر،آیت 13)
مخلوق میں سے کسی نے کبھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ربوبیت کا انکار نہیں کیا۔سوائے ان لوگوں کے جن کو تکبر کا مرض لاحق ہو گیا تھا لیکن وہ بھی جو کچھ کہتے تھے خود اس پر عقیدہ نہ رکھتے تھے جیسا کہ فرعون کے اس خطاب سےظاہر ہےجواس نے اس قوم سے کیا تھا:
فَقَالَ أَنَا۠ رَبُّكُمُ ٱلْأَعْلَىٰ ﴿24﴾
کہنے لگا کہ تمہارا سب سے بڑا پروردگار میں ہوں(سورۂ النازعات،آیت 24)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے دعوائے فرعونی کو ان الفاظ میں بیان کیا:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرِى
اے سردارو! میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا او رکوئی معبود ہے(سورۂ القصص ،آیت 38)
لیکن فرعون کا یہ دعوی عقیدے کی بنیاد پر نہیں تھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَجَحَدُوا۟ بِهَا وَٱسْتَيْقَنَتْهَآ أَنفُسُهُمْ ظُلْمًۭا وَعُلُوًّۭا ۚ
اور انہوں نے انکا ظلم اور تکبر سے انکار کرد یا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے(سورۂ النمل،آیت 14)
اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون سے جو کچھ فرمایا تھا،قرآن کریم میں اس کی حکایت یوں بیان ہوئی ہے،موسی علیہ السلام نے فرمایا:
قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ أَنزَلَ هَٰٓؤُلَآءِ إِلَّا رَبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ بَصَآئِرَ وَإِنِّى لَأَظُنُّكَ يَٰفِرْعَوْنُ مَثْبُورًۭا
انہوں نے کہا کہ تم یہ جانتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے پروردگار کے سوا ان کو کسی نے نازل نہیں کیا۔ (اور وہ بھی تم لوگوں کے) سمجھانے کو۔ اور اے فرعون میں خیال کرتا
ہوں کہ تم ہلاک ہوجاؤ گے (سورۂ بنی اسرائیل،آیت 102)
اسی طرح مشرکین عرب بھی اللہ تعالیٰ کی الوہیت ،یعنی اس کو
ایک جاننے میں شرک کے باوجود اس کی ربوبیت کا اقرار کرتے تھے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد
ہے:
قُل لِّمَنِ ٱلْأَرْضُ وَمَن
فِيهَآ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿84﴾سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿85﴾قُلْ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ
ٱلسَّبْعِ وَرَبُّ ٱلْعَرْشِ ٱلْعَظِيمِ ﴿86﴾سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿87﴾قُلْ مَنۢ بِيَدِهِۦ مَلَكُوتُ
كُلِّ شَىْءٍۢ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿88﴾سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ
فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ ﴿89﴾ان
سے پوچھو یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے کس کا ہے اگر تم جانتے ہووہ فوراً کہیں گے الله
کاہے کہہ دو پھر تم کیوں نہیں سمجھتےان سے پوچھو کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا
مالک کون ہےوہ فوراً کہیں گے الله
ہے کہہ دوکیاپھر تم الله سے نہیں ڈرتےان سے پوچھو کہ ہر چیز کی حکومت کس کے ہاتھ میں
ہے اور وہ بچا لیتا ہے اور اسے کوئی نہیں بچا سکتا اگر تم جانتے ہووہ فوراً کہیں گے الله
ہی کے ہاتھ میں ہے کہہ دو پھرتم کیسے دیوانے ہو رہے ہو(سورۂ المومنون،آیت84-89)
اور ایک جگہ یوں ارشاد ہے:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ
خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ ٱلْعَزِيزُ ٱلْعَلِيمُ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو
کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے کہ انہیں اس بڑے زبردست جاننے والے نے پیدا کیا
ہے(سورۂ الزخرف،آیت 9)
ایک اور جگہ فرمایا:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ
خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا
ہے تو ضرور کہیں گے الله نے پھر کہا ں بہکے جا رہے ہیں(سورۂ الزخرف،آیت 87)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا امر (حکم) ،امر کونی و شرعی دووں
پر مشتمل ہے جس طرح وہ کائنات کا مدبر اعلیٰ ہے،اسی طرح وہ اس کا قاضی بھی ہے،لہذا
اپنی بہترین حکمت عملی کے مطابق وہ جو کچھ چاہتا ہے اس کا فیصلہ فرماتا ہے ۔وہ اس
کائنات کا حاکم مطلق بھی ہے،چنانچہ عبادت احکام اور معاملات میں بتقاضائے مصلحت
،شریعت کے احکام نافذ فرماتا ہے۔جو فرد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو عبادت میں
شریعت ساز،یا معاملات میں حاکم بنا لے وہ مشرک ہے اور اس کا ایمان غیر معتبر ہے۔
اللہ تعالیٰ کی الوہیت پر ایمان: صرف اللہ تعالیٰ ہی تن تنہا حقیقی معبود ہے،کوئی اس کا شریک
نہیں،اور الہ سے مراد وہ ہستی ہے جس کی محبت اور تعظیم کے ساتھ عبادت یا پرستش کی
جائے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌۭ
وَٰحِدٌۭ ۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحْمَٰنُ ٱلرَّحِيمُاور تمہارا معبود ایک
ہی معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے(سورۂ البقرۃ،آیت 163)
ارشاد ہوتا ہے:
شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ
وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ
لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُاللہ تعالیٰ اور فرچتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے
ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ انصاف کو قائم رکھنے والا ہے اس غالب
حکمت والے کے سوا کوئی معبود نہیں (سورۂ آل عمران،آیت 18)
پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کو بھی معبود سمجھ کر پوجا جائے
اس کا الہ ہونا غلط اور باطل ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ذَٰلِكَ بِأَنَّ
ٱللَّهَ يُولِجُ ٱلَّيْلَ فِى ٱلنَّهَارِ وَيُولِجُ ٱلنَّهَارَ فِى ٱلَّيْلِ
وَأَنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌۢ بَصِيرٌۭ وہ
اس لیے کہ الله رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کیا کرتا ہے اور بے شک الله
سننے والا دیکھنے والا ہے(سورۂ الحج،آیت 62)
اگر کوئی شخص کسی کو الہ یا معبود کہنے لگے تو اس سے اس کو حق
الوہیت حاصل نہیں ہو جاتا۔ لات اور عزی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنْ هِىَ إِلَّآ أَسْمَآءٌۭ
سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَٰنٍوہ تو صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ
لئے ہیں۔ اللہ نے تو ان کی کوئی سند نازل نہیں کی (سورۂ النجم،آیت 23)
حضرت یوسف علیہ السلام نے جیل میں اپنے دو ساتھیوں سے
فرمایا تھا:
يَٰصَىٰحِبَىِ ٱلسِّجْنِ
ءَأَرْبَابٌۭ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ ٱللَّهُ ٱلْوَٰحِدُ ٱلْقَهَّارُ ﴿39﴾ مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِۦٓ
إِلَّآ أَسْمَآءًۭ سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ
بِهَا مِن سُلْطَٰنٍ ۚ﴿40﴾اے قید خانہ کے رفیقو
کیا کئی جدا جدا معبود بہتر ہیں یا اکیلا الله جو زبردست ہےتم اس کے سوا کچھ نہیں
پوجتے مگر چند ناموں کو جو تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے مقرر کر لیے ہیں الله
نے ان کے متعلق کوئی سند نہیں اتاری (سورۂ یوسف،آیت 39-40)
اسی لیے تمام پیغمبر علیھم السلام اپنی اپنی قوم سے یہی
کہتے رہے:
ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم
مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥٓ ۖاے
میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں(سورۂ المومنون،آیت 23)
لیکن مشرکین نے اس حقیقت سے انکار کیا اور اللہ کے علاوہ
کچھ دوسرے الہ (معبود) بنا کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ ان کی بھی پرستش کرنے
لگے۔وہ (بوقت ضرورت)ان سے مدد کے طالب ہوتے اور استغاثہ و فریاد کرتے تھے ۔مشرکین
کی طرف سے انہیں معبود بنا لینے کا رد اللہ تعالیٰ نے دو عقلی دلیلوں سے فرمایا
ہے:
پہلی دلیل: جن کو لوگوں نے
الہ (معبود) بنا رکھا ہے ان میں الوہیت کی صفات نہیں پائی جاتیں بلکہ وہ خود مخلوق
ہیں،کسی بھی چیز کو پیدا کرنا ان کے بس کی بات نہیں،وہ اپنی پرستش کرنے والوں کو
نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ ان کی کوئی تکلیف دور کر سکتے ہیں۔نہ وہ ان کی
زندگی کے مالک ہیں نہ موت کے ،نہ آسمان کی کوئی چیز ان کی ملکیت میں ہے اور نہ وہ
اس کے شریک ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ
ءَالِهَةًۭ لَّا يَخْلُقُونَ شَيْـًۭٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ
لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّۭا وَلَا نَفْعًۭا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًۭا وَلَا حَيَوٰةًۭ
وَلَا نُشُورًۭا اور انہوں نے الله کے
سوا ایسے معبود بنا رکھے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے حالانکہ وہ خود پیدا
کیے گئے ہیں اور وہ اپنی ذات کے لیے نقصان اور نفع کے مالک نہیں اور موت اور زندگی
اور دوبارہ اٹھنے کے بھی مالک نہیں(سورۂ الفرقان،آیت 3)
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلِ ٱدْعُوا۟ ٱلَّذِينَ
زَعَمْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۢ فِى
ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍۢ وَمَا لَهُۥ
مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍۢ ﴿22﴾وَلَا تَنفَعُ ٱلشَّفَٰعَةُ عِندَهُۥٓ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُۥ ۚ﴿23﴾کہہ دوالله کے سوا جن کا تمہیں گھمنڈ ہے انہیں
پکارو وہ نہ تو آسمان ہی میں ذرّہ بھر اختیار رکھتے ہیں اور نہ زمین میں اور نہ ان
کا ان میں کچھ حصہ ہے اور نہ ان میں سے الله کا کوئی مددکار ہےاور اس کے ہاں سفارش
نفع نہ دے گی مگر اسی کو جس کے لیے وہ اجازت دے (سورۂ سبا،آیت 22-23)
ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْـًۭٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ﴿191﴾وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًۭا وَلَآ
أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ ﴿192﴾کیا ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کچھ بھھی نہیں بنا سکتے اور وہ
خود بنائے ہوئے ہیںاور نہ وہ ان کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ اپنی ہی
مدد کر سکتے ہیں(سورۂ الاعراف،آیت 191-192)
جب ان معبودان باطلہ کی بے چارگیوں کا یہ حال ہے تو پھر ان
کو حقیقی معبود ٹھہرانا بہت بڑا فریب اور پرلے درجے کی بے وقوفی ہے ۔
دوسری دلیل: ان مشرکین کو بھی اس بات کا یقین اور
اعتراف تھا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا رب اور خالق ہے ،اسی کے ہاتھ میں ہر
چیز کا اختیار ہے،وہ پناہ دیتا ہے۔اس کے مقابلے میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے
سکتا،غرضیکہ کوئی اس کا ہم پلہ نہیں۔اس چیز میں ربوبیت کی یکتائی کی طرح اس کی الوہیت
کی یکتائی بھی شامل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ
ٱعْبُدُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ وَٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ
تَتَّقُونَ ﴿21﴾ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ فِرَٰشًۭا وَٱلسَّمَآءَ بِنَآءًۭ وَأَنزَلَ
مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۭ فَأَخْرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٰتِ رِزْقًۭا لَّكُمْ ۖ
فَلَا تَجْعَلُوا۟ لِلَّهِ أَندَادًۭا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴿22﴾اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا
کیا اور انہیں جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤجس نے تمہارے لیے زمین
کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا پھر اس سے تمہارے کھانے
کے لیے پھل نکالے سو کسی کو الله کا شریک نہ بناؤ حالانکہ تم جانتے بھی ہو(سورۂ البقرۃ،آیت 21-22)
اور ایک مقام پر یوں ارشاد ہوا:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ
خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا
ہے تو ضرور کہیں گے الله نے پھر کہا ں بہکے جا رہے ہیں(سورۂ الزخرف،آیت 87)
اور ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ
ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَمَن يُخْرِجُ
ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ
ٱلْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿31﴾فَذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمُ
ٱلْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ ٱلْحَقِّ إِلَّا ٱلضَّلَٰلُ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ ﴿32﴾
کہو تمہیں آسمان اور
زمین سے کون روزی دیتا ہے یا کانوں اور آنکھوں کا کون مالک ہے اور زندہ کو مردہ سے
کون نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے کون نکلتا ہے اور سب کاموں کا کون انتظام کرتا
ہے سو کہیں گے کہ اللہ تو کہہ دو کہ پھر (اللہ)سے کیوں نہیں ڈرتےیہی الله تمہارا سچا رب
ہے حق کے بعد گمراہی کے سوا اور ہے کیا سوتم کدھر پھرے جاتے ہو(سورۂ یونس،آیت 31-32)
اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر ایمان: اس
سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے خود اپنی کتاب،یا اپنے رسول ﷺ کی
سنت میں جن اسماء و صفات کا اثبات فرمایا ہے،ان کی تحریف و تعطیل اور تکییف و
تمثیل کے بغیر جس طرح اس کی ذات کے شایان شان ہے،اثبات کرنا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد
ہے:
وَلِلَّهِ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰ فَٱدْعُوهُ بِهَا ۖ
وَذَرُوا۟ ٱلَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِىٓ أَسْمَٰٓئِهِۦ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا۟
يَعْمَلُونَ اور سب اچھے نام الله ہی کے لیے ہیں سو اسے انہیں نامو ں سے
پکارو اور چھوڑ دو ان کو جو الله کے نامو ں میں کجروی اختیار کرتے ہیں وہ اپنے کیے
کی سزا پا کر رہیں گے(سورۂ الاعراف ،آیت 180)
اور فرمایا:
وَهُوَ ٱلَّذِى يَبْدَؤُا۟
ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ۚ وَلَهُ ٱلْمَثَلُ
ٱلْأَعْلَىٰ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ اور وہی ہے جو پہلی بار بناتا ہے پھر اسے لوٹائے
گا اور وہ اس پر آسان ہے اور آسمانوں اور زمین میں اس کی شان نہایت بلند ہے اور وہ
غالب حکمت والا ہے(سورۂ الروم،آیت 27)
اور فرمایا:
لَيْسَ
كَمِثْلِهِۦ شَىْءٌۭ ۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُکوئی چیز اس کی مثل
نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے(سورۂ الشعری ،آیت 11)
اس مسئلے میں دو گروہ گمراہی کا شکار ہوئے ہیں:
1-معطلہ 2-
مشبہہ
1-معطلہ: وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات ،یا ان میں سے
بعض کے منکر ہیں۔ان کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ان اسماء و صفات کا اثبات در
حقیقت ایک تشبیہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق کے مشابہ بنا دیتی ہے ۔لیکن یہ
دعوی بالکل لغو اور باطل ہے۔اس کے وجودہ درج ذیل ہیں:
·
یہ دعوی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کلام میں تضاد جیسے جھوٹے
الزام پر مشتمل ہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ات کے لیے ان اسماء و صفات کا
اثبات کیا ہے لیکن کسی چیز کے اپنے ہم مثل ہونے کی نفی فرمائی ہے،لہذا اگر یہ مان
لیا جائے کہ ان اسماء و صفات کا اثبات تشبیہ کا باعث ہے تو اس سے کلام اللہ میں
تضاد اور بعض آیات کی بعض تردید و تکذیب لازم آتی ہے۔
·
اسم یا صفت میں سے کسی بھی دو چیزوں کے اتفاق سے ان کا باہم
ایک جیسا ہونا لازم نہیں آتا جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ دو شخصوں کے درمیان اس لحاظ
سء اتفاق پایا جاتا ہے کہ وہ دونوں انسان ہیں،سنتے،دیکھتے ہیں اس سے یہ ہر گز لازم
نہیں آتا کہ وہ انسانی مزاج ،سننے ،دیکھنے اور بولنے کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے
کے ساتھ کُلی یکسانیت اور موافقت رکھتے ہیں۔اسی طرح جانوروں کی مثال لے لیجئے ،ان
کے پاس ہاتھ،پاؤں اور آنکھیں پوتی ہیں لیکن اس امر سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے
ہاتھ،پاؤں اور آنکھیں حقیقت میں ایک جیسی ہوتی ہیں۔
پس جب مخلوقات کے درمیان اسماء وصفات میں اتفاق کے باوجود
بھی نمایاں اختلاف ہے،تو خالق و مخلوق کے درمیان تو اس سے کہیں زیادہ واضح اور بڑا
ہوا۔
مشبہہ: یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا
اثبات و اعتراف مخلوق کے ساتھ اس کی تشبیہ سے کرتے ہیں۔ان کا گمان ہے کہ یہی نصوص
کی دلالت کا تقاضا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیی اپنے بندوں سے اسی طرح مخاطب ہوتا ہے جس
طرح کہ وہ سمجھ سکیں۔لیکن یہ گمان بھی باطل ہے اور اس کے وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:
·
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ساتھ مشابہت کی بات ایسی بات ہے
جو عقل اور شریعت دونوں کی رو سے یکسر باطل اور مردود ہے جبکہ یہ امر قطعا ناممکن ہے
کہ کتاب و سنت کی دلالت اور تقاضا غلط اور باطل ہو۔
·
بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اسی طرح خطاب فرمایا ہے
جس طرح وہ اسے اصل معنی کی حیثیت سے سمجھتے ہیں لیکن اس خطاب کے معنی کا جو حصہ اس
کی ذات یا صفات کے بارے میں ہے،اس کی حقیقت کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے یہ فرمایا ہے کہ میں سمیع ہوں
تو سمع اپنے اصل معنی کے اعتبار سے تو معلوم ہے ۔یعنی آوازوں کا ادراک۔لیکن اللہ
تعالیٰ کی سماعت کی نسبت سے اس کے سمیع ہونے کی حقیقت ہمین معلوم نہیں۔ سمع: کی
حقیقت چونکہ مخلوقات میں بھی مختلف ہوتی ہے،اس لیے خالق و مخلوق کے درمیان اس کا
مختلف ہونا اور بھی زیادہ واضح اور عیاں ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں یہ خبر دی ہے کہ وہ
اپنے عرش پر مشتوی ہے تو استوا اپنے اصل معنی کے اعتبار سے یقینا واضح و معلوم ہے
لیکن عرش پر اللہ تعالیٰ کے مستوی ہونے کی نشبت سے اس استوا کی اصل حقیقت کو ٹھیک
اسی طرح مان لینا چاہیے جس طرح کلام الہی نے بیان فرمائی ہے۔یوں بھی اگر دیکھا
جائے تو استوا کی حقیقت مخلوق میں بھی مختلف ہوتی ہے ،چنانچہ کسی مستقر کرسی پر
مستوی ہونا (بلند ہونا)بے قابو ہونے والے اونٹ کے کجاوے پر مستوی ہونے کی طرح نہیں
ہے۔پس یہ چیز جب مخلوق کے معاملے میں مختلف ہے تو خالق و مخلوق کے درمیان یہ
اختلاف کہیں زیادہ واضح اور بڑا ہے۔
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے چند ثمرات
·
اللہ تعالیٰ کی توحید کی تحقیقی اس طرح کہ بندہ اللہ تعالیٰ
کے سوا کسی دوسرے سے ہر گزاُمیدیں وابستہ نہ رکھے،(نہ)کسی دوسرے سے خوفزدہ ہو نہ
کسی اور کی عبادت کرے۔
·
اسمائے حسنی یعنی
اچھے ناموں اور بلند صفات کے تقاضوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس سےکمال
محبت کرنا۔
·
تحقیق عبادت یعنی
جن چیزوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے ان کو بجا لانا اور جن چیزوں سے منع
فرمایا ہے ان سے اجتناب کرنا۔