حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺکے ساتھ کتنے آدمی تھے؟
 اس بارے میں مختلف اقوال ہیں چنانچہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس حج میں آنحضرتﷺکےساتھ90ہزارآدمنیٰ تھے، بعض حضرات نے 1 لاکھ 30ہزار اور بعضوں نے اس سے بھی زائدتعداد بیان کی ہے۔
حضرت اسماء بنت عمیس پہلے حضرت جعفر بن ابی طالب کے نکاح میں تھیں ان کے انتقال کے بعد حضرت ابوبکرصدیق کے نکاح میں آئیں ۔ حضرت ابوبکر کے انتقال کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان سے نکاح کیا۔ چنانچہ جب آنحضرت ﷺحجۃ الوداع کے لئے روانہ ہوئے ہیں تو اس وقت یہ حضرت ابوبکر صدیق کےنکاح
میں تھیں اور ان سے محمد بن ابوبکر پیدا ہوئے۔
آنحضرت ﷺکی طرف سے حضرت اسماء کو غسل کرنے کی ہدایت اس بات کی دلیل ہے کہ نفاس والی عورت کو احرام کے لئے غسل کرنا مسنون ہے اور
یہ غسل نظافت یعنی ستھرائی کے لئے ہوتا ہے طہارت یعنی پاکی کے لئے نہیں، اسی لئے
نفاس والی عورت کو تیمم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا اور یہی حکم حائضہ کا بھی ہے نیز
ان کو آپ  ﷺکے اس حکم کہ ” اور پھر
احرام باندھ لو یعنی احرام کی نیت کرو اور لبیک کہو” سے یہ بات ثابت ہوتی
ہوتی ہے کہ نفاس والی عورت کا احرام صحیح ہوتا ہے ۔ چنانچہ اس مسئلہ پر تمام علماء
کا اتفاق ہے۔
(رسول
کریم ﷺنے مسجد ذوالحلیفہ میں نماز پڑھی)کا مطلب یہ ہے کہ آپ  ﷺنے احرام کی سنت دو رکعت نماز پڑھی، اس بارےمیں
مسئلہ یہ ہے کہ اگر میقات میں مسجد ہو تو مسجد ہی میں یہ دو رکتعتیں پڑھنا زیادہ
بہتر اور اولیٰ ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ پڑھ لے تو بھی
کوئی مضائقہ نہٰں، نیز اوقات مکروہہ میں یہ نماز نہ پڑھ جائے ، علماء یہ بھی لکھتے
ہیں کہ تحیۃ المسجد کی طرح فرض نماز بھی اس نماز کے قائم مقام ہو جاتی ہے۔
لسنا نعرف العمرۃ (اور ہم عمرہ سے واقف نہیں تھے۔
یہ جملہ درآس پہلے جملہ لسنا ننوی الا الحج ہم حج ہی کی نیت کیا کرتے تھے) کی
تاکید کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ان جملوں کی وضاحت یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں یہ
معمول تھا کہ لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو بڑا گناہ سمجھتے تھے ، چنانچہ اس
وقت آنحضرت ﷺنے اس کا رد کیا اور حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا حکم فرمایا اس کی
تفصیل آگے آئے گی۔
جب ہم آنحضرت ﷺکے ساتھ بیت اللہ پہنچے یعنی پہلے
ہم ذی طویٰ میں اترے اور رات کو وہیں قیام کیا اور پھر ١٤ذی الحجہ کو نہا دھو کر
ثنیہ علیا کی طرف سے یعنی جانب بلند سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور پھر اباب
السلام کی جانب سے مسجد حرام میں آئے اور وہاں آکر تحیۃ المسجد کی نماز نہیں پڑھی
کیونکہ بیت اللہ کا طواف ہی وہاں کا تحیۃ ہے۔
(3
بار رمل کیا اور 4مرتبہ آپ نے تیزرفتار سے طواف کیا )اس بارے  میں یہ تفصیل جان لینی چاہئے کہ خانہ کعبہ کے
گرد مطاف پر 7 چکر کرنے کو طواف کہتے ہیں۔ کل طواف کے ساتھ چکر ہوتے ہیں اور ہر
چکر حجر اسود سے شروع ہو کر حجر اسود ہی پر ختم ہوتا ہے ہر چکر کو اصطلاح شریعت
میں ” شوط” کہا جاتا ہے۔
طواف کے 7 چکروں میں سے پہلے 3چکر میں تو رمل
کرنا چاہئے اور پہلوانوں کی طرف کندھے ہلا ہلا کر ، اکڑ کر اور کچھ تیزی کے ساتھ
قریب قریب قدم رکھ کر چلنا ” رمل” کہلاتاہے ، طواف کے باقی 4 چکروں میں
آہستہ آہستہ یعنی آپ نی معمولی چال کے ساتھ چلنا چاہئے۔
"رمل”
یعنی اکڑ کر تیز تیز چلنے کی وجہ یہ ہے کہ جب نبی کریم ﷺعمرۃ القضاء کے لئے مکہ
تشریف لائے تو مشرکین نے آپ  کو دیکھ کر
کہا کہ تپ یثرب یعنی مدینہ کے بخار نے ان کو بہت ضعیف وسست کردیا ہے لہٰذا آنحضرت ﷺنے
مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس طرح چل کر اپنی قوت وچستی کا اظہار کرو۔ وہ وقت تو گزر
گیا مگر اس علّت اور وجہ کے دور ہوجانے کے بعد بھی یہ حکم باقی رہا چنانچہ یہ
طریقہ اب تک جاری ہے۔
اس حدیث میں ” اضطباع ” کا ذکر نہیں
کیا گیا ہے لیکن طواف کے وقت اضطباع بھی مسنون ہے چنانچہ دوسری احادیث میں اس کا
ذکر موجود ہے۔
چادر کو اس طرح اوڑھنا کہ ان کا ایک سرا داہنے
کاندھے سے اتار کر اور داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کاندھے پر ڈال لیا جائے
اضبطاع کہلاتا ہے چادر کو اس طرح اورھنے کا حکم بھی اظہار قوت کے لئے دیا گیا تھا
ور یہ حکم بھی بعد میں باق رہا۔
"مقام
ابراہیم ” کے معنی ہیں حضرت ابراہیم کے پاؤں کے نشان بن گئے تھے جو آج تک
قائم ہیں۔
بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ مقام ابراہیم ایک
پتھر ہے کہ جب حضرت ابراہیم آپ نے فرزند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو دیکھنے مکہ
آتے تھے تو اونٹ سے اسی پتھر پر اترتے تھے اور جب جانے لگتے تو اسی پتھر پر کھڑے
ہو کر سوار ہوتے اس پتھر پر ان کے دونں مبارک قدموں کا نشان بن گیا ہے! بہر کیف یہ
پتھر اب خانہ کعبہ کے آگے ایک حجرے میں رکھا ہوا ہے، آنحضرت ﷺنے طواف سے فارغ ہو
کر اسی مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی یہ دو رکعت نماز اگرچہ اسی جگہ
کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے لیکن جائز حرم میں ہر جگہ پڑھنا ہے چاہے مسجد حرام میں
پڑھی جائے اور چاہے مسجد حرام سے باہر نیز ہر طواف کے بعد یہ نماز حضرت امام اعظم
ابو حنیفہ کے نزدیک واجب ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے ہاں سنت ہے۔
ان دورکعتوں میں قل ہواللہ احد اور قل یا ایہا
الکافرون کی قرات کی اس عبادرت سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺنے قل ہواللہ
احد پہلی رکعت میں پڑھی اور قل یا ایہا الکافرون دوسری رکعت میں جب کہ اس طرح سورہ
مقدم پر سورہ متاخر کی تقدیم یعنی بعد کی سورت کو پہلے اور پہلے کی سورت کو بعد
میں پڑھنے کی صورت لازم آتی ہے، اس لئے علماء نے اس کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ
حدیث میں اس بارےمیں جو عبارت نقل کی گئی ہے اس میں حرف واؤ صرف اظہار جمع کے لئے
یعنی آپ  کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ آپ  ﷺنے ان دونوں رکعتوں میں یہ دونوں سورتیں پڑھیں،
اب یہ کہ ان میں سے کون سی پہلی رکعت میں پڑھی اور کون سی سورت دوسری رکعت میں ؟ اس
کی وضاحت نہ اس سے مقصود ہے اور نہ یہاں اس کی وضاحت موجود ہی ہے اس توجیہ کے پیش
نظر کوئی اشکال پیدا نہیں ہوسکتا۔ پھرطیبی نے اس عبارت میں ان دونوں سورتوں کے ذکر
کی مذکورہ ترتیب کے بارےمیں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ قل ہواللہ احد، اللہ تعالیٰ کی
وحدانیت کے اثبات واظہار کے لئے ہے اور قل یا ایہا الکافرون شرک سے بیزاری کے
واسطے ہے، اس لئے توحید کی عظمت شان اور اس کی سب سے زیادہ اہمیت کی بناء پر اس
سورت کو پہلے ذکر کیا جس سے توحید کا اثبات ہوتا ہے۔
ان تمام باتوں کے علاوہ بعض روایتوں میں اس عبارت
کو اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ اس میں پہلے قل یا ایہا الکافرون ذکر ہے اور بعد میں
قل ہواللہ احد کا اس صورت میں بات بالکل ہی صاف ہوجاتی ہے۔
آپ  ﷺنے
صفا اور مروہ کے درمیان سعی 7 بار کی، بایں طور کہ صفا سے مروہ تک 1بار، مروہ سے
صفا تک دوسری بار، اسی طرح آپ  ﷺنے 7پھیرے
کئے اس طرح سعی کی ابتداء تو صفا سے ہوئی اور ختم مروہ پر ہوئی جیسا کہ حدیث کے
الفاظ یہاں تک کہ جب آپ  ﷺنے مروہ سعی کا
اختتام کیا سے بھی یہی ثابت ہوتاہے۔

سعی یعنی صفا مروہ کے درمیان پھیرے کرنا واجب ہے اس کی اصل یہ ہے کہ حضرت
اسمٰعیل علیہ السلام جن دنوں چھوٹے تھے تو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش کو
گئیں جب نشیب میں پہنچیں تو حضرت اسمٰعیل ان کی نظر سے پوشیدہ ہوگئے وہ صفا اور
مروہ پر چڑھ کر ان کو دیکھنے کے لئے ان دونوں کے درمیان پھیرے کرتی تھیں، چنانچہ
یہ سعی انہیں کی سنت ہے جسے آنحضرت ﷺنے پورا کیا اب صفاومروہ کے درمیان چونکہ مٹی
بھرگئی ہے اس لئے وہ نشیب باقی نہیں رہا البتہ وہاں نشان بنادیئے گئے ہیں اور حضرت
ہاجرہ کی سنت کو پورا کرنے کے لئے وہاں دوڑتے پھرتے ہیں۔

 جاری ہے

جب آنحضرت ﷺکے لئے قربانی کے واسطے یمن سے اونٹ لے کر آئے تو آنحضرت ﷺنے ان سےفرمایا کہ جب تم نے آپ نے اوپر حج لازم کیا تھا تو اس وقت یعنی احرام باندھنے کے وقت کیاکہاتھا؟تونے کس چیز کے لئے احرام باندھا تھا اور کیا نیت کی تھی؟ حضرت علی نے کہا کہ میں نے اسطرح کہا تھاکہ :
اللہم انی اہل بنا اہل بہ رسولک
یعنی اے اللہ! میں اس چیز کا احرام باندھتا ہوں جس چیز کا احرام تیرے رسول ﷺنے باندھاہے۔
 آنحضرت ﷺنے فرمایا میرے ساتھ تو قربانی کا جانور ہے اور میں عمرے کا احرام باندھے ہوئے ہوں، اس لئے جب تک عمرہ اور حج دونوں سے فارغ نہ ہوجاؤں اس وقت تک احرام سے نہیں نکل سکتا اور چونکہ تم نے وہی نیت کی ہے جو میں نے کی ہے تو تم بھی احرام نہ کھولو۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ وہ اونٹ جو آنحضرت ﷺکے لئے قربانی کے واسطے حضرت علی یمن سے لے کر آئے تھے اور وہ
اونٹ جو آنحضرت ﷺخود آپ نے ہمراہ لائے تھے، سب کی مجموعی تعداد سو تھی۔ حضرت جابر
کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺکے ارشاد کے مطابق سب لوگوں نے کہ جن کے ساتھ قربانی کا
جانور نہیں تھا عمرہ کر کے، احرام کھول دیا، اپنے سروں کے بال کٹوادئیے مگر آنحضرت
ﷺاور وہ لوگ جن کے ساتھ قربانی کے جانور تھے احرام کی حالت میں رہے پھر جب ترویہ
کا دن آیا یعنی ذی الحجہ کی آٹھویں تایخ آئی تو سب لوگ منیٰ کی طرف روانہ ہونے کے
لئے تیار ہوئے چنانچہ ان صحابہ نے کہ جو عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد احرام سے نکل
آئے تھے حج کا احرام باندھا اور آنحضرت ﷺبھی آفتاب طلوع ہونے کے بعد سوار ہوئے اور
منیٰ پہنچ گئے منیٰ کی مسجد خیف میں ظہر وعصر، مغرب عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھی
گئیں اور نویں تاریخ کی فجر کی نماز پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر قیام کیا یہاں تک کہ
آفتاب نکل آیا اور آنحضرت ﷺنے حکم دیا کہ آپ
ﷺکے لئے وادی نمرہ عرفات میں خیمہ
نصب کیاجائے جو بالوں کا بنا ہوا تھا پھر رسول کریم ﷺمنیٰ سے عرفات کو روانہ ہوئے
قریش کو گمان تھا کہ آنحضرت ﷺمشعر حرام مزدلفہ میں قیام کریں گے جیسا کہ قریش
زمانہ جاہلیت میں حج کے موقعہ پر کیا کرتے تھے مگر رسول کریم ﷺمزدلفہ سے آگے بڑھ
گئے یہاں تک کہ جو میدان عرفات میں آئے اور وادی نمرہ میں آپ نے خیمہ کو کھڑا پایا
چنانچہ آپ  ﷺاس میں آگرے اور قیام کیا یہاں
تک کہ جب دوپہر ڈھل گیا توقصواء کو جو آپ  ﷺکی
اونٹنی کا نام تھا، لانے کا حکم دیا جب قصواء آگئی تو اس پر پالان کس دیا گیا ور آپ
ﷺاس پر سوار ہو کر وادی نمرہ میں تشریف
لائے اور لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
لوگو! تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح
حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن عرفہ میں تمہارے اس مہینہ ذی الحجہ میں اور تمہارے
اس شہر (مکہ میں حرام ہیں یعنی جس طرح تم عرفہ کے دن ذی الحجہ کے مہینہ میں اور
مکہ مکرمہ قتل و غارت گری اور لوٹ مار کو حرام سمجھتے ہو اسی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے
لئے اور ہر جگہ ایک مسلمان کی جان و مال دوسرے پر حرام ہے لہٰذا تم میں سے کوئی
بھی کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ کسی کا خون نہ کر کسی کا مال چوری و دغابازی سے
نہ کھا جائے اور کسی کو کسی جانی اور مالی تکلیف و مصیبت میں بھی مبتلا نہ کرے)
یاد رکھو! زمانہ جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں کے
نیچے ہے اور پامال و بے قدر یعنی موقوف باطل ہے لہٰذا اسلام سے پہلے جس نے جو کچھ
کیا میں نے وہ سب معاف کیا اور زمانہ جاہلیت کے تمام رسم و رواج کو موقوف و ختم کر
دیا زمانہ جاہلیت کے خون معاف کر دیئے گئے ہیں لہٰذا زمانہ جاہلیت میں اگر کسی نے
کسی کا خون کر دیا تھا تو اب نہ اس کا قصاص ہے نہ دیت اور نہ کفارہ بلکہ اس کی
معافی کا اعلان ہے اور سب سے پہلا خون جسے میں اپنے خونوں سے معاف کرتا ہوں ربیعہ
بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔ جو ایک شیر خوار بچہ تھا اور قبیلہ بنی سعد میں دودھ
پیتا تھا اور ہزیل نے اس کو مار ڈالا تھا۔ زمانہ جاہلیت کا سود معاف کر دیا گیا ہے
اور سب سے پہلا سود جسے میں اپنے سودوں سے معاف کرتا ہوں عباس بن عبدالمطلب کا سود
ہے لہٰذا وہ زمانہ جاہلیت کا سود ہے لہٰذا وہ زمانہ جاہلیت کا سود بالکل معاف کر
دیا گیا ہے۔
 لوگو!
عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو، تم نے ان کو خدا کی امان کے ساتھ لیا ہے یعنی
ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کو عزت و احترام کے ساتھ رکھنے کا جو عہد خدا نے تم
سے لیا ہے یا اس کا عہد جو تم نے خدا سے کیا ہے اسی کے مطابق عورتیں تمہارے پاس
آئی ہیں، اور ان کی شرم گاہوں کو خدا کے حکم سے (یعنی
فانکحوا کے مطابق رشتہ زن و شو قائم کر کے) اپنے لئے
حلال بنایا ہے اور عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی ایسے شخص
کو نہ آنے دیں جس کا آنا تم کو ناگوار گزرے یعنی وہ تمہارے گھروں میں کسی کو بھی
تمہاری اجازت کے بغیر نہ آنے دیں خواہ وہ مرد ہو یا عورت، پس اگر وہ اس معاملہ میں
نافرمانی کریں کہ تمہاری اجازت کے بغیر کسی کو گھر آنے دیں اور ڈانٹ ڈپٹ کے بعد
بھی وہ اس سے باز نہ آئیں تو تم اس کو مارو مگر اس طرح نہ مارو جس سے سختی و شدت
ظاہر ہو اور انہیں کوئی گزند پہنچ جائے اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کو اپنی
استطاعت و حیثیت کے مطابق کھانے پینے کا سامان اور مکان اور کپڑا دو۔
 لوگو!
میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑتا ہوں جس کو اگر تم مضبوطی سے تھانے رہو گے تو
میرے بعد (یا اس کو مضبوطی سے تھامے رہنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد) تم ہرگز
گمراہ نہیں ہو گے اور وہ چیز کتاب اللہ ہے اور اے لوگو! میرے بارے میں تم سے پوچھا
جائے گا کہ میں نے منصب رسالت کے فرائض پوری طرح انجام دئیے یا نہیں ؟ اور میں نے
دین کے احکام تم تک پہنچا دئیے یا نہیں؟ تو تم کیا جواب دو گے؟ اس موقع پر صحابہ
نے (بیک زبان) کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ ﷺنے
دین کو ہم تک پہنچا دیا اپنے فرض کو ادا کر دیا اور ہماری خیر خواہی کی۔
 اس کے
بعد آنحضرت ﷺنے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا بایں طور کہ اسے آسمان کی طرف
اٹھایا اور پھر لوگوں کی طرف جھکا کر تین مرتبہ یہ کہا کہ:
 اے اللہ!
اپنے بندوں کے اس اقرار اور اعتراف پر تو گواہ رہ اے اللہ! تو گواہ رہ۔

 اس کے بعد حضرت بلال ؓ نے اذان دی اور اقامت کہی
اور ظہر کی نماز پڑھی گئی پھر دوبارہ اقامت کہی گئی اور عصر کی نماز ہوئی اور ان
دونوں نمازوں کے درمیان کوئی چیز یعنی سنت و نفل نہیں پڑھی گئی پھر آنحضرت ﷺسوار
ہوئے اور میدان عرفات میں ٹھہرنے کی جگہ پہنچے وہاں اپنی اونٹنی قصواء کا پیٹ
پتھروں کی طرف کیا اور جبل مشاۃ یہ ایک جگہ کا نام ہے اپنے آگے رکھا پھر قبلہ کی
طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا، زردی بھی تھوڑی سی جاتی
رہی اور آفتاب کی ٹکیہ غائب ہو گئی۔ آپ ﷺنے حضرت اسامہ ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا اور
تیز تیز چل کر مزدلفہ آ گئے یہاں ایک اذان اور دو تکبیروں کے ساتھ مغرب و عشاء کی
نمازیں پڑھیں اور ان دونوں نمازوں کے درمیان اور کچھ نہیں پڑھا پھر آپ ﷺلیٹ گئے
یہاں تک کہ جب فجر طلوع ہو گئی تو آپ ﷺنے صبح کی روشنی پھیل جانے پر اذان و اقامت
کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی پھر آپ ﷺاونٹنی پر سوار ہو کر مشعر حرام میں آئے اور
وہاں قبلہ رو ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ تکبیر کہی۔
لا الہ اللہ پڑھا اور خدا کی وحدانیت کی
یعنی
لا الہ الااللہ وحدہ لا شریک لہآخر
تک پڑھا وہیں کھڑے تکبیر و تہلیل وغیرہ میں مصروف رہے یہاں تک کہ صبح خوب روشن ہو
گئی تو سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے چلے اور حضرت فضیل بن عباس ؓ کو اپنے پیچھے
سوار کیا جب وادی محسر میں پہنچے تو اپنی سواری کو تیز چلانے کے لئے تھوڑی سی حرکت
دی اور اس درمیانی راہ پر ہو لئے جو جمرہ کبریٰ کے اوپر نکلتی ہے تاآنکہ آپ اس
جمرہ کے پاس پہنچے جو درخت کے قریب ہے اور اس پر سات کنکریں ماریں اس طرح کہ ان
میں سے ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے تھے اور وہ کنکریاں باقلہ کے دانہ کے برابر
تھیں اور آپ ﷺنے وہ کنکریاں نالے یعنی وادی کے درمیان سے ماریں اس کے بعد قربانی
کرنے کی جگہ جو منیٰ میں ہے واپس آئے اور یہاں آپ ﷺنے اپنے دست مبارک سے تریسٹھ
اونٹ ذبح کئے اور باقی اونٹ حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے سپرد کئے چنانچہ باقی
سینتیس اونٹ حضرت علی ؓ نے ذبح کئے۔ آنحضرت ﷺنے حکم دیا کہ ہر اونٹ میں سے گوشت کا
ایک ٹکڑا لیا جائے چنانچہ وہ سب گوشت لے کر ایک ہانڈی میں ڈال دیا گیا اور اسے
پکایا گیا جب گوشت پک گیا تو آنحضرت ﷺاور حضرت علی ؓ نے قربانی کے اس گوشت میں سے
کھایا اور اس کا شوربہ پیا۔ آنحضرت ﷺسوار ہوئے اور خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہو گئے،
وہاں پہنچ کر طواف کیا اور مکہ میں ظہر کی نماز پڑھی پھر عبدالمطلب کی اولاد یعنی
اپنے چچا حضرت عباس اور ان کی اولاد کے پاس تشریف لائے جو زمزم کا پانی پلا رہے
تھے آپ ﷺنے ان سے فرمایا۔ عبدالمطلب کی اولاد زمزم کا پانی کھینچو اور پلاؤ کہ یہ
بہت ثواب کا کام ہے اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ تمہارے پانی پلانے پر
غلبہ پا لیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچتا ابھی اس بات کا خوف ہے کہ لوگ
مجھے پانی کھینچتا دیکھ کر میری اتباع میں خود بھی پانی کھینچنے لگیں گے اور یہاں
بہت زیادہ جمع ہو جائیں گے جس کی وجہ سے زمزم کا پانی کھینچنے اور پلانے کی یہ
سعادت تمہارے ہاتھ سے چلی جائے گی اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا تو میں خود بھی تم
لوگوں کے ساتھ پانی کھینچتا اور لوگوں کو پلاتا، چنانچہ عبدالمطلب کی اولاد نے آپ ﷺکو
پانی کا ایک ڈول دیا جس میں سے آپ ﷺنے پانی پیا۔ (مسلم)


 جاری ہے

 
مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 1095
 حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺنے ہجرت کے بعد مدینہ میں نو برس اس طرح گزارے کہ حج نہیں کیا البتہ آپ  ﷺنے عمرے کئے ۔ پھر جب حج کی فرضیت نازل ہوئی تو دسویں سال آپ   ﷺنے لوگوں میں اعلان کرایا کہ رسول اللہ حج کا ارادہ رکھتے ہیں جو لوگ حج کے لئے جانا چاہتے ہیں وہ رفاقت کے لئے تیار ہوجائیں اس اعلان کو سن کرمخلوق خدا کی ایک بہت بڑی تعداد مدینہ میں جمع ہوگئی چنانچہ آپ  ﷺکے ساتھ ماہ ذی قعدہ کے ختم ہونے سے پانچ  دن پہلے ظہر وعصر کے درمیان مدینہ سے روانہ ہوگئے جب لوگ ذوالحلیفہ پہنچے تو وہاں اسماء بنت عمیس ؓ  کے بطن سے محمد بن
ابوبکر پیدا ہوئے۔ اسماء نے کسی کو آنحضرت ﷺکی خدمت میں بھیجا اور دریافت کرایا کہ اب میں کیا کروں؟ آیا احرام باندھوں یا نہ باندھوں اور اگر باندھوں تو کس طرح باندھوں؟ آپ  ﷺنے کہلا بھیجا کہ غسل کر کے کپڑے کا لنگوٹ باندھو اور پھر احرام باندھ لو بہر کیف رسول کریم ﷺنے مسجد ذوالحلیفہ میں نماز پڑھی اور قصواء پر کہ جو آنحضرت ﷺکی اونٹنی کا نام تھا سوا رہوئے یہاں تک کہ جب آپ   ﷺکی اونٹنی آپ  ﷺکو لے کر بیداء کے میدان میں کھڑی ہوئی تو آپ  ﷺنے بآواز بلند تلبیہ کے یہ کلمات کہے:
لبیک اللہم لبیکلاشریک لک لبیک
 ان الحمد والنعمۃ لک والملک
 لا شریک لک
حاضر ہوں تیری خدمت میں اے اللہ! تیری خدمت میں حاضر ہوں، حاضرہوں
تیری خدمت میں ،تیرا کوئی شریک نہیں حاضر ہوں تیری خدمت میں ،
بے شک تعریف اور نعمت تیرے لئے ہے اور بادشاہت بھی تیرے ہی لئے ہے ،
تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔
حضرت جابر کہتے ہیں کہ ہم اس سے پہلے حج ہی کی نیت کیا کرتے تھے اور ہم حج کے مہینوں میں عمرہ سے واقف بھی نہیں تھے بہر کیف جب ہم آنحضرت ﷺکے ساتھ بیت اللہ پہنچے تو حجر اسود پر ہاتھ رکھا اور اس کو بوسہ دیا اور تین بار رمل یعنی تیز رفتار سے اور اکڑ کر خانہ کعبہ کا طواف کیا اور چارمرتبہ آپ نی رفتار سے یعنی آہستہ آہستہ چل کر طواف کیااورطواف کے بعد مقام ابراہیم کی طرف بڑھے اور یہ آیت پڑھی۔ واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی مقام ابراہیم کےاطراف کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ یعنی وہاں نماز پڑھو پھر آنحضرت ﷺنے مقام ابراہیم اور بیت اللہ کو آپ نےدرمیان کر کے دو رکعت نماز پڑھی اور ایک روایت کے مطابق ان دورکعتوں میں قل ہواللہ اور قل یا ایہا الکافرون کی قرات کی پھر حجر اسود کی طرف لوٹے اور اس کو بوسہ دیا اس سے فارغ ہو کر مسجد کے دروازہ یعنی باب الصفاسےنکلےاور صفا پہاڑ کی طرف چلے چنانچہ جب صفا کے قریب پہنچے تو یہ اایت پڑھی۔ ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کے دین کی نشانیوں میں سے ہیں اور فرمایامیں بھی اسی چیز کے ساتھ ابتداء کرتاہوں۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں پہلے صفا کا ذکر کیا ہے پھر مروہ کا اسی طرح میں بھی پہلے صفا پر چرھتا ہوں پھر مروہ پرچڑھوںگا، چنانچہ آپ  ﷺنے سعی کی ابتداء صفا سے کی اور اس پر چڑھے۔ یہاں تک کہ آپ  ﷺنے جب صفا
سے بیت اللہ کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی بڑائی بیان کی
یعنی لا الہ الا اللہاوراللہ
اکبر
کہا اور یہ کلمات فرمائے۔
لا
الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ
 لہ الملک ولہ الحمد
 وہو علی کل شیء قدیر
لا
الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ
انجز
وعدہ ونصر عبدہ وہزم الاحزاب وحدہ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں
اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے ،
اور وہی ہر چیز پر قادر ہے
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں
آپ نےاسلام کا بول بالا کرنے کا وعدہ پورا کیا اپنے بندوں کی مدد کی اور
کفار کے لشکر کو تنہا شکست دی یعنی غزوۂ خندق۔
پھر
اس کے درمیان دعا کی اور تین مرتبہ اسی طرح کہا (یعنی پہلے یہ کلمات کہے اور پھر
دعا کی اور اسی طرح تین مرتبہ کہا) اس کے بعد صفا سے اترے اور مروہ پہاڑ کی طرف
چلے یہاں تک کہ جب آپ  ﷺکے دونون قدم چڑھنے
لگے (یعنی نشیب سے مروہ کی بلندی پر چڑھنے لگے) تو (دوڑنا موقوف کر کے) آہستہ
آہستہ چلنے لگے اور پھر جب مروہ پر پہنچ گئے تو وہی کیا جو صفا پر کیا تھا یہاں تک
کہ جب آپ  ﷺنے مروہ پر سعی کا اختتام کیا
تو لوگوں کو آواز دی ۔آپ  ﷺمروہ کے اوپر
تھے۔ اور لوگ اس کے نیچے اور فرمایا اگر آپ کے بارےمیں مجھے پہلے سے وہ بات معلوم
ہوتی جو بعد کو معلوم ہوئی ہے تو ہدی (قربانی کاجانور)اپنے ساتھ نہ لاتا اور اپنے
حج کو عمرہ کردیتا لہٰذا تم میں سے جو شخص ہدی آپ نے ساتھ نہ لایا ہو وہ حلال
ہوجائے یعنی حج کا احرام کھول دے اور حج کو عمرہ بنالے یہ سن کر حضرت سراقہ بن
مالک بن جعشم کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہمارے واسطے یہ حکم اسی سال
کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے؟ آنحضرت ﷺنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں
میں ڈال کر فرمایا عمرہ حج میں داخل ہوگیا ہے آپ  ﷺنے یہ بات دو مرتبہ کہی اور پھر فرمایا نہیں یہ
حکم خاص طور پر اسی سال کے لئے نہیں ہے بلکہ ہمیشہ کے لئے ہے کہ حج کے مہینوں میں
عمرہ جائزہے اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ جو یمن کے حاکم مقرر ہوگئے تھے…
 جاری ہے

مدارس سے ایسی ایسی نامور اور نادر روزگارہستیاں فارغ ہو کر نکلیں جنہوں نے اقطارِ عالم میں علم و فن  کےچراغ روشن کیے، زنگی کے مختلف شعبوں میں حیرت انگیز انکشافات اور ایجادات کیں کہ انہی  کوبنیادبناکراورانہی سے رہنمائی حاصل کر کے آج اقوام علوم و فنون کے میدان میں ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں۔
’’اسلامیہ تعلیم، حق تعالیٰ کی عبادت اور وراثتِ انبیاء ہے۔ یہ تعلیم ان کے دین و ایمان کی امانت اور دنیاوآخرت میں فلاح و کامرانی کا ذریعہ ہے۔‘‘
؎
آج اسلام خواہ ایک نظریہ کی حیثیت سے ہے۔  اگر زندہ ہے تو محض انہی مدارس کے طفیل زندہ ہے۔ سرکاری اعانت و معاونت سے محروم بلکہ مخالفت و حوصلہ فرسائی کی فضا میں ان مدارس نے دینِ قیم کی شمع کو روشن کررکھا ہے۔ روکھی سوکھی کھا کر، ٹوٹی پھوٹی چٹائیوں پر بیٹھ کر قرآن و حدیث، فقہ و کلام، تاریخ و سیر، صرف و نحو، بلاغت و ادب، منطق و فلسفہ اور ہیئت و ہندسہ جیسے دقیق علوم و فنون میں دسترس حاصل کرنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ یہ وہ کام ہے جو جدید تعلیمی ادارے بھرپور سرکاری سرپرستی کے باوجود نہیں کر سکے۔

فرشتوں پر ایمان
 ملائکہ یعنی فرشتے ایک پوشیدہ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی مخلوق ہیں،ان میں ربوبیت اور الوہیت کی کوئی خصوصیت موجود نہیں،اللہ تعالیٰ نے انہیں نور سے پیدا فرمایا ہے اور ان کو اپنے تمام احکام پوری طرھ بجا لانے اور انہیں نافذکرنےکی قدرت و قوت عطا فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَهُۥ مَن فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِندَهُۥ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِۦ وَلَايَسْتَحْسِرُونَ ﴿19﴾يُسَبِّحُونَ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَلَايَفْتُرُونَ ﴿20
اور اسی کا ہے جو کوئي آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو اس کے ہاں ہیں اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتےاور نہ تھکتے ہیںرات اور دن تسبیح کرتے ہیں سستی نہیں کرتے(سورۂ الانبیاء،آیت 19-20)
فرشتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ،اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی صحیح تعداد کوئی نہیں جانتا۔
حضرت انس ؓ کی قصہ معراج والی حدیث میں ہے:
 نبی ﷺ جب آسمان پر بیت المعمور پر پہنچے تو دیکھا کہ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جو اس میں ایک بار (نماز پڑھ کر ) چلا جاتا ہے  دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتا،یعنی پھر کبھی اس کی واپسی کی نوبت نہیں آتی۔
(صحیح بخاری،بد ء الخلق ،باب ذکر الملائکۃ صلوات اللہ علیھم،حدیث :3207،وصحیح مسلم ،الایمان،باب الاسراء برسول اللہ۔۔۔۔،حدیث :164)
فرشتوں پر ایمان لانا چار امور پر مشتمل ہے

فرشتوں کے وجود پر ایمان۔
جن فرشتوں کے نام ہمیں معلوم ہیں ان پر ایمان مفصل اور جن فرشتوں کے نام معلوم نہیں ان سب پر اجمالا ایمان لانا۔
·فرشتوں کی جن صفات کا ہمیں علم ہے ان پر ایمان لانا جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی صفت کے متعلق نبی ﷺ نے بیان فرمایا:
میں نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل شکل و صورت میں دیکھا۔ان کے چھ سو پر تھے اور انہوں نے افق کو بھر رکھا تھا۔یعنی پوری فضاپرچھائےہوئے تھے۔(مسند احمد:1/407،412،460۔)
کبھی فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسانی شکل و صورت میں بھی ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے متعلق معروف ہے کہ جب اللہ
تعالیٰ نے انہیں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس بھیجا تو وہ ان کے پاس ایک عام انسان کی شکل میں آئے تھے۔
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،اس وقت آپ (ﷺ) صحابہ کرام ؓ کے درمیان تشریف فرماتھے۔وہ ایک ایسے شخص کی شکل میں آئے تھے کہ ان کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال غیر معمولی طور پر سیاہ تھے اور ان پر سفر کے آثار بھی نہیں تھے،صحابہ میں سے کوئی بھی انہیں نہیں پہچانتا تھا۔وہ اپنے گھٹنے نبی ﷺ کے گھٹنوں سے ملا کر بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ لیے۔انہوں نے نبی ﷺ سے اسلام،ایمان،احسان،قیامت کی گھڑی اور اس کی نشانیوں کے بارے میں سوال کیا۔نبی ﷺ انہیں جواب دیتےرہے۔پھرنبیﷺنے صحابہ کرام ؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
ھذا جبریل اتاکم یعلمکم دینکم
یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ (صحیح مسلم،الایمان،باب الایمان ما ھو؟وبیان خصالہ،حدیث:9،10)
اسی طرح وہ فرشتے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیھم السلام کے پاس بھیجا تھا وہ بھی انسان ہی کی شکل میں آئےتھے۔
·فرشتوں کے ان اعمال پر ایمان لانا جو ہمیں معلوم ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انجام دیتےہیں،مثلا اللہ عزوجل کی تسبیح کرنا اور دن رات
مسلسل بغیر تھکاوٹ اور اکتاہٹ کے اس کی عبادت کرنا وغیرہ۔بعض فرشتے مخصوص اعمال کے لیے مقرر ہیں۔جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
جبریل امین:         اللہ تعالیٰ کی وحی پہنچانے پر مامور ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ساتھ انہیں اپنے نبیوں اور رسولوں کے پاس بھیجا ہے۔
میکائیل:             ان کے ذمہ بارش اور نباتات (یعنی روزی) پہنچانے کا کام ہے۔
اسرافیل:            قیامت کی گھڑی اور مخلوق کو دوبارہ زندہ کیے جانے کے وقت صور پھونکنے پر مامور ہیں۔
موت کا فرشتہ:     موت کے وقت روح قبض کرنے پر مامور ہے۔
مالک:                 یہ فرشتہ داروغہ جہنم ہے۔
جنین پر مامور فرشتے:                      اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو شکم مادر مین جنین (بچے) پر مامور ہیں،چنانچہ جب انسان ماں کے رحم میں چار ماہ کی مدت پوری کرلیتاہےتو االلہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کی موت،اس کے عمل اور اس کے بد بخت یا سعادت مند ہونے کو اھاطہ تحریر میں لاتا ہے۔
نبی آدم کے اعمال کی حفاظت پر مامور فرشتے:                  ہر شخص کے اعمال کی حفاظت اور انہیں لکھنے کے لیے دو فرشتےمقرر ہیں جن میں سے ایک انسان کے دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب رہتا ہے۔
مُردوں سے سوال کرنے پر مامور فرشتے:                     جب میت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس سے اس کے رب ،اس کے دین اوراس کے نبی کی بابت سوال کرتے ہیں۔
فرشتوں پر ایمان لانے کے ثمرات
·اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی ۔اس کی قوت اور اس کی س؛طنت کا علم کیونکہ مخلوق کی عظمت درحقیقت خالق کی عظمت کی دلیل ہے۔
·بنی آدم پر عنایات و انعامات کرنے پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا کہ اس نے ان فرشتوں کو بنی آدم کی حفاظت ،ان کے اعمال لکھنے اور دیگرمصلحتوں پرمامورفرمایا ہے۔
·فرشتوں سے محبت کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اپنے سپرد کردہ فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔
فرشتوں کے متعلق بعض شبہات اور ان کا
ازالہ:  
           گمراہ اور بدنیتوں کی ایک جماعت نے فرشتوں کے مجسم مخلوق ہونے کا انکار کیا ہے۔ان کا دعوی ہے کہ فرشتے دراصل مخلوقات مین موجودخیروبرکت کی(پوشیدہ)قوتوں کا نام ہے لیکن یہ دعوی کتاب اللہ،سنت رسول اللہ ﷺ اور تمام مسلمانو کے اجماع کو صریھا جھٹلانے کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ جَاعِلِ ٱلْمَلَٰٓئِكَةِ رُسُلًا أُو۟لِىٓ أَجْنِحَةٍۢ مَّثْنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَٰعَ ۚ
سب تعریف الله کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے فرشتوں کو رسول بنانے والا ہے جن کے دو دو تین تین چار چار پر ہیں
(سورۂ فاطر،آیت 1)
اور ایک جگہ یوں ارشاد ہوا:
وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذْ يَتَوَفَّى ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ۙ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَٰرَهُمْ
اور اگر تو دیکھے جس وقت فرشتے کافروں کی جان قبض کرتے ہیں ان کے مونہوں او رپیٹھوں پر مارتے ہیں(سورۂ الانفال،آیت 50)
اور ایک جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذِ ٱلظَّٰلِمُونَ فِى غَمَرَٰتِ ٱلْمَوْتِ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ بَاسِطُوٓا۟ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوٓا۟ أَنفُسَكُمُ
ۖاور کاش تم ان ظالم (یعنی مشرک) لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں اور فرشتے (ان کی طرف عذاب کے لئے) ہاتھ بڑھارہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں۔(سورۂ الانعام،آیت 93)
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
حَتَّىٰٓ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا۟ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا۟ ٱلْحَقَّ ۖ وَهُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْكَبِيرُ 
یہاں تک کہ جب ان کے دل سے گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے کہتے ہیں تمہارے رب نے کیا فرمایا وہ کہتے ہیں سچی بات فرمائی اوروہی عالیشان اور سب سےبڑاہے(سورۂ سبا،آیت 23)
اور اہل جنت کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
جَنَّٰتُ عَدْنٍۢ يَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ ءَابَآئِهِمْ وَأَزْوَٰجِهِمْ وَذُرِّيَّٰتِهِمْ ۖ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍۢ ﴿23﴾سَلَٰمٌ عَلَيْكُم بِمَاصَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى ٱلدَّارِ ﴿24﴾
ہمیشہ رہنے کے باغ جن میں وہ خود بھی رہیں گے اور ان کے باپ دادا اوربیویوں اور اولاد میں سے بھی جو نیکو کار ہیں اور ان کے پاس فرشتےہردروازےسےآئیں گےکہیں گے تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کرنے کی وجہ سے پھر آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے(سورۂ الرعد،آیت 23،24)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو پسند فرماتا ہے تو جبریل کو پکارتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ بے شک اللہ فلاں بندے کو محبوب رکھتا ہے ،پس تم بھی اس  سے محبت کرو،تو جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔پھر جبرائیل علیہ السلام آسمان والوں کو پکارتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپے فلاں بندےکومحبوب رکھتا ہے ،تم لوگ بھی اس سے محبت رکھو تو تمام آسمان والے بھی اس بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں۔پھر اس کو زمین پر بھی شرف قبولیت سے نوازا جاتا ہے۔(صحیح بخاری ،بدالخلق،باب ذکر الملائکۃ صلوات اللہ علیھم،۔۔۔۔۔حدیث:3209)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ایک دوسری حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
 جمعہ کے دن مسجد کے تمام دروازوں پر فرشتے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مسجد میں آنے والے نمازیوں (کے ناموں)کا ترتیب وار اندراج کرتےہیں،پھرجب امام (خطبہ کے لیے منبر پر) بیٹھ جاتا ہے تو وہ بھی اپنے اپنے رجسٹر بند کر کے ( اللہ تعالیٰ کا ذکر) سننے کے لیے ( مسجد میں) آ جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری ،بدالخلق،باب ذکر الملائکۃ صلوات اللہ علیھم،۔۔۔۔۔حدیث:3211)
کتاب و سنت پر مشتمل مذکورہ بالا تمام نصوص اس بات کی صراحت کرتی ہیں کہ فرشتے مجسم مخلوق ہیں،کوئی پوشیدہ اور معنوی قوتیں نہیں جیسا کہ بعض
گمراہ لوگوں کا کہنا ہے ،نیز چونکہ سب دلائل پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے،لہذا اس مسئلے پر مسلمانوں کا اجماع ثابت ہوا۔

ایمانیات
1-اللہ تعالیٰ پر ایمان
2-فرشتوں پر ایمان
3-کتابوں پر ایمان
4-رسولوں پر ایمان
5-یوم آخرت پرایمان
6-تقدیر پر ایمان(چاہے اچھی ہو یا بری)
 دین اسلام جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے عقیدے اور شریعت کا نام ہے اور گزشتہ مضامین میں ہم دین اسلام کے بعض شرائع ،یعنی احکام کی جانب اشارہ اور اس کے ان ارکان کا جو ان شرائع اور احکام کی بنیاد ہیں،تذکرہ کر چکے ہیں۔اب ہم ایمانیات کا ذکر کریں گے۔
ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ،اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں ،اس کے رسولوں،آخرت کے دن اچھی ہو یا بری تقدیرکوبرضاو رغبت تسلیم کیا جائے۔قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کی سنت میں ان بنیادوں پردلائل موجودہیں۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
لَّيْسَ ٱلْبِرَّ أَن تُوَلُّوا۟ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ ٱلْبِرَّ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلْكِتَٰبِ وَٱلنَّبِيِّنَ
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو،بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ جو ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کےدن پر اور فرشتوں پر اور سب کتابوں پر اور نبیوں پر۔ (سورۂ البقرۃ،آیت 177)
تقدیر کے متعلق ارشاد ہے:
إِنَّا كُلَّ شَىْءٍ خَلَقْنَٰهُ بِقَدَرٍۢ ﴿49وَمَآ أَمْرُنَآ إِلَّا وَٰحِدَةٌۭ كَلَمْحٍۭ بِٱلْبَصَرِ ﴿50
ہم نے ہر چیز ایک (مقرر)اندازے کے مطابق پیدا کی ہے اور ہمارا حکم تو آنکھ جھپکنے کی طرح ایک بات ہی ہوتی ہے۔(سورۂ القمر،آیت 49-50)
احادیث میں موجود ہےکہ نبی ﷺ نے ایمان کے متعلق حضرت جبرائیل علیہ السلام کے سوال کے جواب میں فرمایا:
 (ایمان)یہ ہے کہ تو اللہ پر،اس کے فرشتوں پر،اس کی کتابوں پر،اس کے رسولوں پر،آخرت کے دن پر اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان لائے۔ (صحیح مسلم،الایمان)
اللہ تعالیٰ پر ایمان
اللہ تعالیٰ پر ایمان چار امور پر مشتمل ہے:
اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان:              اللہ تعالیٰ کے وجود پر عقل،فطرت ،حس اور شریعت سبھی چیزیں دلالت کرتی ہیں۔
وجود باری تعالیٰ پر فطری دلائل:          ہر مخلوق کا اپنے خالق پر ایمان کی ھالت میں پیدا ہونا ایک ایسا فطری اورپیدائشی وصف ہے جو غور و فکر اور علم کے بغیر اس کی جبلت میں شامل ہے،لہذا کوئی فرد فطرت کے اس تقاضے سے ہرگز نہیں پھرتا مگر یہ کہ کوئی غلط ماحول اس کے دل پر ایسے نقوش بٹھا دے جو اسے اس کی فطرت سے پھیر دیں۔جیسا کہ نبیﷺکے اس ارشاد سے واضح ہے:
 ما من مولود الا یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ              
ہربچہ فطرت ہی پر پیدا ہوتا ہے،پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری،الجنائز)
وجود باری تعالیٰ پر عقلی دلائل:            تمام مخلوقات س پہلے ان کے خلاق اور موجد کا موجود ہونا شرط لازم ہے کیونکہ کسی فرد یا کسی چیز کا از خود ،اتفاقی یا حادثاتی طور پر وجود میں آ جانا قطعا نا ممکن ہے۔اور وہ اس لیے کہ کوئی چیز اپنے آپ کوخود پیدا نہیں کر سکتی کیونکہ وہ اپنے وجود سے پہلے معدوم ہوتی ہے اور جو چیز معدوم ہو وہ خالق کس طرح ہوسکتی ہے؟
اسی طرح کسی چیز کا اچانک اتفاقیہ یا حادثاتی طور پر وجودپا جانا بھی ناممکن ہے کیونکہ ہر حادث ،یعنی نئی چیز کے لیے کسی محدث ،یعنی وجود بخشنےوالے کا موجود ہونا لازمی ہے۔مزید برآں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس حادث کاوجودایک مستقل دلفریب نظام،مناسب ترتیب ،اسباب و مسببات اور کائنات کی بعض چیزوں کے درمیان مضبوط باہمی تعلق و ارتباط پر منحصر ہونا،اس بات کی مکمل نفی کرتا ہے کہ اس کا وجود محض ایک حادثہ یا اتفاق ہے ۔اگر موجودات اپنی اصل میں کسی نظم کی پابند ہونے کی بجائے دفعتا ایک اتفاق کا نتیجہ ہوتیں تو اب تک ان کی بقا اور ارتقاء یعنی بتدریج نشونما کیوں کر باقاعدہ منظم پیمانے پر ہوتی؟
جب ان مخلوقات کا خودزاد ہونا یا اچانک اتفاقی اور حادثاتی طور پر پیدا ہو جانا محال ہے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ ان سب چیزوں کا کوئی موجد و خالق ضرور ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سارے جہانوں کاپروردگارہے۔اللہ تعالیٰ نے اس عقلی اور قطعی دلیل کا حوالہ خود سورہ طور میں یوں دیا ہے:
أَمْ خُلِقُوا۟ مِنْ غَيْرِ شَىْءٍ أَمْ هُمُ ٱلْخَٰلِقُونَ 
کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا ہو گئے ہیں یا وہ خود خالق ہیں (سورۂ الطور،آیت 35)
یعنی وہ بغیر خالق کے پیدا نہیں ہوئے اور نہ انہوں نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا ہے،پس ثابت ہوا کہ ان کا کوئی بنانےوالاضرور موجود ہے،اور وہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب حضرت جبیر بن معطم ؓ نے رسول اللہﷺ کو سورہ طور کی یہ آیات تلاوت کرتے ہوئے سنا:
أَمْ خُلِقُوا۟ مِنْ غَيْرِ شَىْءٍ أَمْ هُمُ ٱلْخَٰلِقُونَ ﴿٥٣35﴾أَمْ خَلَقُوا۟ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ ۚ بَل لَّايُوقِنُونَ ﴿٦٣36﴾أَمْ عِندَهُمْ خَزَآئِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ ٱلْمُصَۣيْطِرُونَ ﴿37٧٣﴾
کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا ہو گئے ہیں یا وہ خود خالق ہیں یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کوبنایا ہے نہیں بلکہ وہ یقین ہی نہیں کرتے کیا ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے ہیں یا وہ داروغہ ہیں (سورۂ الطور،آیت 35تا37)
 تو اس وقت حالت کفر میں ہونے کے باوجود وہ بے ساختہ بول اُٹھے:
 میرا دل شکستہ،بدحال اور اڑا اڑا سا ہو گیا۔اور یہ پہلی بار ہوا جب ایمان نے میرے دل میں گھر کر لیا تھا۔ (صحیح بخاری،المغازی)
مزید وضاحت کے لیے ایک مثال پیش خد مت ہے:
اگر کوئی شخص آپ کو کسی ایسے مضبوط بلند و بالا محل کی خبر دے جس میں چاروں طرف باغات ہوں،ان کے درمیان نہریں بہہ رہی ہوں،تخت پوش لگے ہوں ،نرم و نازک بچھونے بچھے ہوئے ہوں اور تزئین و آرائش کے ہر سامان سے محل خوب سجا ہوا ہو،پھر وہ شخص یہ کہے کہ یہ محل اور اس میں موجود سارا سامان بغیر کسی بنانے والے کے خودبخود وجود میں آگیاتو آپ نہ صرف پوری قوت سے اس کا انکار کر دیں گے اوراسے جھٹلائیں گے بلکہ اسے پاگل قرار دیں گے۔
کیا اس مثال کے بعد بھی اس بات کا کوئی جواز ہے کہ وسیع کائنات زمین،آسمان،سورج،چاند،ستارے اور سیاروں کی بےمثال گردشوں کے سلسلے ،صحرا وکوہسار سمندر اور ندی نالے محض ایک اتفاق یا حادثے کی بنا پر خودبخود وجود میں آگئےہیں؟
وجود باری تعالیٰ پر شرعی دلائل:          بلاشبہ تمام آسمانی کتابیں اللہ تعالیٰ کے وجود پر شاہد ہیں اور مخلوق کی مصلحتوں کےسلسلے میں جو احکام ان کتب سماویہ میں آئے ہیں،وہ سب اس حقیقت عظمی کی دلیل ہے کہ بلاشبہ یہ کتابیں ایک نہایت دانا ،حکیم اور اپنی مخلوق کی مصلحتوں کو خوب جاننے والے پرودگار کی طرف سے ہیں اور ان آسمانی کتابوں میں جن تکوینی باتوں کی امر واقع نے تصدیق کی ہے وہ بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ بلاشبہ یہ تمام چیزیں ایک ایسے رب کی طرف سےہیں جو ان تمام چیزوں کی ایجاد پر پوری قدرت رکھتا ہے جن کے بارے میں اس نے خبر دی ہے۔
وجود باری تعالیٰ پر حسی دلائلحسی دلائل دو قسم کے ہیں:
1-                    ہم دعا کرنے والوں کی دعاؤں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھتے اور سنتے ہیں،اسی طرح انتہائی دکھ اور تکالیف میں مبتلا لوگوں کی فریاد رسی بھی کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے۔یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی ہستی پر دلالت کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَنُوحًا إِذْ نَادَىٰ مِن قَبْلُ فَٱسْتَجَبْنَا لَهُۥ
 اور نوح کو جب اس نے اس سے پہلے پکارا پھر ہم نے اس کی دعا قبول کر لی (سورۂ الانبیاء،آیت 76)
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَٱسْتَجَابَ لَكُمْ
 اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے ،پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سن لی۔(سورۂ الانفال،آیت9)
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے۔انہوں نے فرمایا:
 جمعہ کے دن ایک اعرابی اس وقت (مسجد نبوی میں)داخل ہوا جب نبی ﷺ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے،اس نے عرض کی!اے اللہ کے رسول!(بارش نہ ہونے کی وجہ سے )تمام مال و متاع تباہ ہو گیا اور اہل و عیال بھوکے ہیں،اللہ تعالیٰ سےہمارے لیے(بارش کی)دعا فرمائیں۔آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی۔چاروں طرف سے پہاڑوں کے مانند بادل امڈ آ ئے ،آپ اپنے منبر سے نیچے بھی نہ اُتر پائے تھے کہ میں نے بارش کی بوندیں آپ کی داڑھی مبارک پرپڑتےدیکھیں۔دوسرے جمعہ کو وہی یا کوئی دوسرا اعرابی کھڑا ہوا اور عرض کی:اے اللہ کے رسول !(بارش کی کثرت سے)ہمارے گھر منہدم ہو گئے ہیں۔اور مال و متاع (پانی میں) غرق ہو گیا ہے،آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے (بارش تھمنے) کی دعا فرمائیں،رسول اللہ ﷺ نے دست مبارک اٹھائے اور یہ دعا فرمائی:
اللھم حوالینا ولا علینا(اے اللہ !ہمارے اردگرد نازل فرما،ہم پر نہ برسا)
پھر آپ نے جوں ہی ادھر ادھر اطراف میں اشارہ فرمایا ،بادلوں میں شگاف پڑ گیا اور وہ فورا چھٹ گئے۔ (صحیح بخاری،الجمعۃ،باب الاستسقاء فی الخطبہ یوم الجمعہ)
2-                    بہت سے لوگوں نے انبیاء علیہم السلام کی نشانیوں کو جنہیں معجزات کہا جاتا ہے خود دیکھا ہے یا معتبرذرائع  سے ان کے بارے میں سنا ہے۔ان رسووں کے بھیجنے والے اللہ
تعالیٰ کی ذات کے وجود پر زبردست دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔معجزے انسانی فہم سے بالا تر ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنےرسولوں کی تائید و نصرت کے لیے جاری فرمایا تھا۔
معجزات کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
1-                    پہلی مثال حضرت موسی علیہ السلام کے اس معجزے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سمندر پر لاٹھی مارنےکاحکم فرمایا،جونہی موسی علیہ السلام نے فرمان الہی کی تعمیل کی ،سمندر میں بارہ خشک راستے بن گئے ،اور ان راستوں کے درمیان پانی پہاڑوں کے مانند کھڑا ہو گیا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
فَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ أَنِ ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْبَحْرَ ۖ فَٱنفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍۢ كَٱلطَّوْدِ ٱلْعَظِيمِ 
پھر ہم نےموسیٰ کو وحی کی کہ اپنی لاٹھی کو سمندر پر مار پھر پھٹ گیا پھر ہر ٹکڑا بڑے ٹیلے کی طرح ہو گیا (سورۂ الشعراء،آیت 63)
2-                    دوسری مثال حضرت عیسی علیہ السلام کے مردوں کو زندہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں قبروں سے باہر نکالنے والے معجزے کی ہے،قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کی بابت منقول ہے:
وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ
اور میں زندہ کرتا ہوں مُردوں کو اللہ تعالٰٰ کے حکم سے۔ (سورۂ آل عمران،آیت 49)
اور ایک مقام پر یوں ارشاد ہوا ہے:
وَإِذْ تُخْرِجُ ٱلْمَوْتَىٰ بِإِذْنِى
اور جب تم مُردوں کو نکال کر کھڑا کر لیتے تھے میرے حکم سے۔ (سورۂ المائدہ،آیت 110)
3-                    تیسری مثال حضرت محمد ﷺکے معجزہ شق القمر(چاندکے دو ٹکڑے ہو جانے)کی ہے۔جن قریش مکہ نےآپ سے معجزے کا مطالبہ کیا تو آپ نے چاند کی طرف اشارہ فرمایا۔وہ دو حصوں میں پھٹ گیا اور لوگوں نے اس کاسرعام مشاہدہ کیا۔اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا
ہے:
ٱقْتَرَبَتِ ٱلسَّاعَةُ وَٱنشَقَّ ٱلْقَمَرُ ﴿1﴾وَإِن يَرَوْا۟ ءَايَةًۭ يُعْرِضُوا۟ وَيَقُولُوا۟ سِحْرٌۭ مُّسْتَمِرٌّۭ ﴿2﴾
قیامت قریب آ پہنچی اور چاند شق ہوگیا اور اگر (کافر) کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک ہمیشہ کا جادو ہے (سورۂ القمر،آیت1-2)ان تمام معجزات و علامات کا تعلق محسوسات ،یعنی سننے اوردیکھنے سے ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے رسولوں کی تائید و نصرت کے لیے جاری فرمایا تھا،یہ تمام معجزات اللہ تعالیٰ کی ہستی پر دلالت کرتےہیں۔
اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان:           اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان لانے کا مطلب ہے کہ وہ اکیلا اور تن تنہاپروردگارہےہے۔(نہ)اس کا کوئی شریک ہے نہ مددگار۔رب سے مراد وہ ہستی ہے جو پوری مخلوق اور بادشاہی کی مالک ہو،اور حکم بھی صرف اسی کا چلتا ہو،پس اللہ تعالیٰ کے علاوہ (نہ) کوئی دوسرا خالق ہے نہ کوئی دوسرا مالک ہے،اور حاکم مطلق بھی وہی ہے۔اس کے علاوہ کوئی دوسرا حاکم نہیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ
 اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا(سورۂ الاعراف،آیت 54)
اور ایک مقام پر ارشاد ہوا:
ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ ٱلْمُلْكُ ۚ وَٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ
یہی الله تمہارا رب ہے اسی کی بادشاہی ہے اور جنہیں تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ ایک گھٹلی کے چھلکے کے مالک نہیں(سورۂ فاطر،آیت 13)
مخلوق میں سے کسی نے کبھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ربوبیت کا انکار نہیں کیا۔سوائے ان لوگوں کے جن کو تکبر کا مرض لاحق ہو گیا تھا لیکن وہ بھی جو کچھ کہتے تھے خود اس پر عقیدہ نہ رکھتے تھے جیسا کہ فرعون کے اس خطاب سےظاہر ہےجواس نے اس قوم سے کیا تھا:
فَقَالَ أَنَا۠ رَبُّكُمُ ٱلْأَعْلَىٰ ﴿24﴾
کہنے لگا کہ تمہارا سب سے بڑا پروردگار میں ہوں(سورۂ النازعات،آیت 24)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے دعوائے فرعونی کو ان الفاظ میں بیان کیا:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرِى
اے سردارو! میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا او رکوئی معبود ہے(سورۂ القصص ،آیت 38)
لیکن فرعون کا یہ دعوی عقیدے کی بنیاد پر نہیں تھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَجَحَدُوا۟ بِهَا وَٱسْتَيْقَنَتْهَآ أَنفُسُهُمْ ظُلْمًۭا وَعُلُوًّۭا ۚ
اور انہوں نے انکا ظلم اور تکبر سے انکار کرد یا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے(سورۂ النمل،آیت 14)
اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون سے جو کچھ فرمایا تھا،قرآن کریم میں اس کی حکایت یوں بیان ہوئی ہے،موسی علیہ السلام نے فرمایا:
قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ أَنزَلَ هَٰٓؤُلَآءِ إِلَّا رَبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ بَصَآئِرَ وَإِنِّى لَأَظُنُّكَ يَٰفِرْعَوْنُ مَثْبُورًۭا 
انہوں نے کہا کہ تم یہ جانتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے پروردگار کے سوا ان کو کسی نے نازل نہیں کیا۔ (اور وہ بھی تم لوگوں کے) سمجھانے کو۔ اور اے فرعون میں خیال کرتا
ہوں کہ تم ہلاک ہوجاؤ گے
(سورۂ بنی اسرائیل،آیت 102)
اسی طرح مشرکین عرب بھی اللہ تعالیٰ کی الوہیت ،یعنی اس کو
ایک جاننے میں شرک کے باوجود اس کی ربوبیت کا اقرار کرتے تھے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد
ہے:
قُل لِّمَنِ ٱلْأَرْضُ وَمَن
فِيهَآ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
 ﴿84﴾سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿85﴾قُلْ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ
ٱلسَّبْعِ وَرَبُّ ٱلْعَرْشِ ٱلْعَظِيمِ
 ﴿86﴾سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿87﴾قُلْ مَنۢ بِيَدِهِۦ مَلَكُوتُ
كُلِّ شَىْءٍۢ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
 ﴿88﴾سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ
فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ
 ﴿89﴾ان
سے پوچھو یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے کس کا ہے اگر تم جانتے ہو
وہ فوراً کہیں گے الله
کاہے کہہ دو پھر تم کیوں نہیں سمجھتے
ان سے پوچھو کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا
مالک کون ہے
وہ فوراً کہیں گے الله
ہے کہہ دوکیاپھر تم الله سے نہیں ڈرتے
ان سے پوچھو کہ ہر چیز کی حکومت کس کے ہاتھ میں
ہے اور وہ بچا لیتا ہے اور اسے کوئی نہیں بچا سکتا اگر تم جانتے ہو
وہ فوراً کہیں گے الله
ہی کے ہاتھ میں ہے کہہ دو پھرتم کیسے دیوانے ہو رہے ہو
(سورۂ المومنون،آیت84-89)
اور ایک جگہ یوں ارشاد ہے:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ
خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ ٱلْعَزِيزُ ٱلْعَلِيمُ
 اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو
کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے کہ انہیں اس بڑے زبردست جاننے والے نے پیدا کیا
ہے
(سورۂ الزخرف،آیت 9)
ایک اور جگہ فرمایا:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ
خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
 اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا
ہے تو ضرور کہیں گے الله نے پھر کہا ں بہکے جا رہے ہیں
(سورۂ الزخرف،آیت 87)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا امر (حکم) ،امر کونی و شرعی دووں
پر مشتمل ہے جس طرح وہ کائنات کا مدبر اعلیٰ ہے،اسی طرح وہ اس کا قاضی بھی ہے،لہذا
اپنی بہترین حکمت عملی کے مطابق وہ جو کچھ چاہتا ہے اس کا فیصلہ فرماتا ہے ۔وہ اس
کائنات کا حاکم مطلق بھی ہے،چنانچہ عبادت احکام اور معاملات میں بتقاضائے مصلحت
،شریعت کے احکام نافذ فرماتا ہے۔جو فرد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو عبادت میں
شریعت ساز،یا معاملات میں حاکم بنا لے وہ مشرک ہے اور اس کا ایمان غیر معتبر ہے۔
اللہ تعالیٰ کی الوہیت پر ایمان:           صرف اللہ تعالیٰ ہی تن تنہا حقیقی معبود ہے،کوئی اس کا شریک
نہیں،اور الہ سے مراد وہ ہستی ہے جس کی محبت اور تعظیم کے ساتھ عبادت یا پرستش کی
جائے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌۭ
وَٰحِدٌۭ ۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحْمَٰنُ ٱلرَّحِيمُ
اور تمہارا معبود ایک
ہی معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
(سورۂ البقرۃ،آیت 163)
ارشاد ہوتا ہے:
شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ
وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ
لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اللہ تعالیٰ اور فرچتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے
ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ انصاف کو قائم رکھنے والا ہے اس غالب
حکمت والے کے سوا کوئی معبود نہیں (سورۂ آل عمران،آیت 18)
پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کو بھی معبود سمجھ کر پوجا جائے
اس کا الہ ہونا غلط اور باطل ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ذَٰلِكَ بِأَنَّ
ٱللَّهَ يُولِجُ ٱلَّيْلَ فِى ٱلنَّهَارِ وَيُولِجُ ٱلنَّهَارَ فِى ٱلَّيْلِ
وَأَنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌۢ بَصِيرٌۭ
 وہ
اس لیے کہ الله رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کیا کرتا ہے اور بے شک الله
سننے والا دیکھنے والا ہے
(سورۂ الحج،آیت 62)
اگر کوئی شخص کسی کو الہ یا معبود کہنے لگے تو اس سے اس کو حق
الوہیت حاصل نہیں ہو جاتا۔ لات اور عزی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنْ هِىَ إِلَّآ أَسْمَآءٌۭ
سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَٰنٍ
وہ تو صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ
لئے ہیں۔ اللہ نے تو ان کی کوئی سند نازل نہیں کی
(سورۂ النجم،آیت 23)
حضرت یوسف علیہ السلام نے جیل میں اپنے دو ساتھیوں سے
فرمایا تھا:
يَٰصَىٰحِبَىِ ٱلسِّجْنِ
ءَأَرْبَابٌۭ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ ٱللَّهُ ٱلْوَٰحِدُ ٱلْقَهَّارُ
 ﴿39﴾ مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِۦٓ
إِلَّآ أَسْمَآءًۭ سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ
بِهَا مِن سُلْطَٰنٍ ۚ
﴿40﴾اے قید خانہ کے رفیقو
کیا کئی جدا جدا معبود بہتر ہیں یا اکیلا الله جو زبردست ہے
تم اس کے سوا کچھ نہیں
پوجتے مگر چند ناموں کو جو تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے مقرر کر لیے ہیں الله
نے ان کے متعلق کوئی سند نہیں اتاری
(سورۂ یوسف،آیت 39-40)
اسی لیے تمام پیغمبر علیھم السلام اپنی اپنی قوم سے یہی
کہتے رہے:
ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم
مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥٓ ۖ
اے
میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں
(سورۂ المومنون،آیت 23)
لیکن مشرکین نے اس حقیقت سے انکار کیا اور اللہ کے علاوہ
کچھ دوسرے الہ (معبود) بنا کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ ان کی بھی پرستش کرنے
لگے۔وہ (بوقت ضرورت)ان سے مدد کے طالب ہوتے اور استغاثہ و فریاد کرتے تھے ۔مشرکین
کی طرف سے انہیں معبود بنا لینے کا رد اللہ تعالیٰ نے دو عقلی دلیلوں سے فرمایا
ہے:
پہلی دلیل:           جن کو لوگوں نے
الہ (معبود) بنا رکھا ہے ان میں الوہیت کی صفات نہیں پائی جاتیں بلکہ وہ خود مخلوق
ہیں،کسی بھی چیز کو پیدا کرنا ان کے بس کی بات نہیں،وہ اپنی پرستش کرنے والوں کو
نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ ان کی کوئی تکلیف دور کر سکتے ہیں۔نہ وہ ان کی
زندگی کے مالک ہیں نہ موت کے ،نہ آسمان کی کوئی چیز ان کی ملکیت میں ہے اور نہ وہ
اس کے شریک ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ
ءَالِهَةًۭ لَّا يَخْلُقُونَ شَيْـًۭٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ
لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّۭا وَلَا نَفْعًۭا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًۭا وَلَا حَيَوٰةًۭ
وَلَا نُشُورًۭا
 اور انہوں نے الله کے
سوا ایسے معبود بنا رکھے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے حالانکہ وہ خود پیدا
کیے گئے ہیں اور وہ اپنی ذات کے لیے نقصان اور نفع کے مالک نہیں اور موت اور زندگی
اور دوبارہ اٹھنے کے بھی مالک نہیں
(سورۂ الفرقان،آیت 3)
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلِ ٱدْعُوا۟ ٱلَّذِينَ
زَعَمْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۢ فِى
ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍۢ وَمَا لَهُۥ
مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍۢ
 ﴿22﴾وَلَا تَنفَعُ ٱلشَّفَٰعَةُ عِندَهُۥٓ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُۥ ۚ﴿23﴾کہہ دوالله کے سوا جن کا تمہیں گھمنڈ ہے انہیں
پکارو وہ نہ تو آسمان ہی میں ذرّہ بھر اختیار رکھتے ہیں اور نہ زمین میں اور نہ ان
کا ان میں کچھ حصہ ہے اور نہ ان میں سے الله کا کوئی مددکار ہے
اور اس کے ہاں سفارش
نفع نہ دے گی مگر اسی کو جس کے لیے وہ اجازت دے
(سورۂ سبا،آیت 22-23)
ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْـًۭٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ﴿191﴾وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًۭا وَلَآ
أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ ﴿192﴾
کیا ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کچھ بھھی نہیں بنا سکتے اور وہ
خود بنائے ہوئے ہیں
اور نہ وہ ان کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ اپنی ہی
مدد کر سکتے ہیں
(سورۂ الاعراف،آیت 191-192)
جب ان معبودان باطلہ کی بے چارگیوں کا یہ حال ہے تو پھر ان
کو حقیقی معبود ٹھہرانا بہت بڑا فریب اور پرلے درجے کی بے وقوفی ہے ۔
دوسری دلیل:      ان مشرکین کو بھی اس بات کا یقین اور
اعتراف تھا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا رب اور خالق ہے ،اسی کے ہاتھ میں ہر
چیز کا اختیار ہے،وہ پناہ دیتا ہے۔اس کے مقابلے میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے
سکتا،غرضیکہ کوئی اس کا ہم پلہ نہیں۔اس چیز میں ربوبیت کی یکتائی کی طرح اس کی الوہیت
کی یکتائی بھی شامل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ
ٱعْبُدُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ وَٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ
تَتَّقُونَ
 ﴿21﴾ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ فِرَٰشًۭا وَٱلسَّمَآءَ بِنَآءًۭ وَأَنزَلَ
مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۭ فَأَخْرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٰتِ رِزْقًۭا لَّكُمْ ۖ
فَلَا تَجْعَلُوا۟ لِلَّهِ أَندَادًۭا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
﴿22﴾اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا
کیا اور انہیں جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ
جس نے تمہارے لیے زمین
کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا پھر اس سے تمہارے کھانے
کے لیے پھل نکالے سو کسی کو الله کا شریک نہ بناؤ حالانکہ تم جانتے بھی ہو
(سورۂ البقرۃ،آیت 21-22)
اور ایک مقام پر یوں ارشاد ہوا:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ
خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
 اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا
ہے تو ضرور کہیں گے الله نے پھر کہا ں بہکے جا رہے ہیں
(سورۂ الزخرف،آیت 87)
اور ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ
ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَمَن يُخْرِجُ
ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ
ٱلْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ
 ﴿31﴾فَذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمُ
ٱلْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ ٱلْحَقِّ إِلَّا ٱلضَّلَٰلُ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ
 ﴿32﴾
 کہو تمہیں آسمان اور
زمین سے کون روزی دیتا ہے یا کانوں اور آنکھوں کا کون مالک ہے اور زندہ کو مردہ سے
کون نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے کون نکلتا ہے اور سب کاموں کا کون انتظام کرتا
ہے سو کہیں گے کہ اللہ تو کہہ دو کہ پھر (اللہ)سے کیوں نہیں ڈرتے
یہی الله تمہارا سچا رب
ہے حق کے بعد گمراہی کے سوا اور ہے کیا سوتم کدھر پھرے جاتے ہو
(سورۂ یونس،آیت 31-32)
اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر ایمان:    اس
سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے خود اپنی کتاب،یا اپنے رسول ﷺ کی
سنت میں جن اسماء و صفات کا اثبات فرمایا ہے،ان کی تحریف و تعطیل اور تکییف و
تمثیل کے بغیر جس طرح اس کی ذات کے شایان شان ہے،اثبات کرنا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد
ہے:
وَلِلَّهِ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰ فَٱدْعُوهُ بِهَا ۖ
وَذَرُوا۟ ٱلَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِىٓ أَسْمَٰٓئِهِۦ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا۟
يَعْمَلُونَ 
اور سب اچھے نام الله ہی کے لیے ہیں سو اسے انہیں نامو ں سے
پکارو اور چھوڑ دو ان کو جو الله کے نامو ں میں کجروی اختیار کرتے ہیں وہ اپنے کیے
کی سزا پا کر رہیں گے
(سورۂ الاعراف ،آیت 180)
اور فرمایا:
وَهُوَ ٱلَّذِى يَبْدَؤُا۟
ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ۚ وَلَهُ ٱلْمَثَلُ
ٱلْأَعْلَىٰ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
 اور وہی ہے جو پہلی بار بناتا ہے پھر اسے لوٹائے
گا اور وہ اس پر آسان ہے اور آسمانوں اور زمین میں اس کی شان نہایت بلند ہے اور وہ
غالب حکمت والا ہے
(سورۂ الروم،آیت 27)
اور فرمایا:
لَيْسَ
كَمِثْلِهِۦ شَىْءٌۭ ۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ
کوئی چیز اس کی مثل
نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے
(سورۂ الشعری ،آیت 11)
اس مسئلے میں دو گروہ گمراہی کا شکار ہوئے ہیں:
1-معطلہ            2-
مشبہہ
1-معطلہ:           وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات ،یا ان میں سے
بعض کے منکر ہیں۔ان کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ان اسماء و صفات کا اثبات در
حقیقت ایک تشبیہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق کے مشابہ بنا دیتی ہے ۔لیکن یہ
دعوی بالکل لغو اور باطل ہے۔اس کے وجودہ درج ذیل ہیں:
·
یہ دعوی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کلام میں تضاد جیسے جھوٹے
الزام پر مشتمل ہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ات کے لیے ان اسماء و صفات کا
اثبات کیا ہے لیکن کسی چیز کے اپنے ہم مثل ہونے کی نفی فرمائی ہے،لہذا اگر یہ مان
لیا جائے کہ ان اسماء و صفات کا اثبات تشبیہ کا باعث ہے تو اس سے کلام اللہ میں
تضاد اور بعض آیات کی بعض تردید و تکذیب لازم آتی ہے۔
·
اسم یا صفت میں سے کسی بھی دو چیزوں کے اتفاق سے ان کا باہم
ایک جیسا ہونا لازم نہیں آتا جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ دو شخصوں کے درمیان اس لحاظ
سء اتفاق پایا جاتا ہے کہ وہ دونوں انسان ہیں،سنتے،دیکھتے ہیں اس سے یہ ہر گز لازم
نہیں آتا کہ وہ انسانی مزاج ،سننے ،دیکھنے اور بولنے کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے
کے ساتھ کُلی یکسانیت اور موافقت رکھتے ہیں۔اسی طرح جانوروں کی مثال لے لیجئے ،ان
کے پاس ہاتھ،پاؤں اور آنکھیں پوتی ہیں لیکن اس امر سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے
ہاتھ،پاؤں اور آنکھیں حقیقت میں ایک جیسی ہوتی ہیں۔
پس جب مخلوقات کے درمیان اسماء وصفات میں اتفاق کے باوجود
بھی نمایاں اختلاف ہے،تو خالق و مخلوق کے درمیان تو اس سے کہیں زیادہ واضح اور بڑا
ہوا۔
مشبہہ:                یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا
اثبات و اعتراف مخلوق کے ساتھ اس کی تشبیہ سے کرتے ہیں۔ان کا گمان ہے کہ یہی نصوص
کی دلالت کا تقاضا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیی اپنے بندوں سے اسی طرح مخاطب ہوتا ہے جس
طرح کہ وہ سمجھ سکیں۔لیکن یہ گمان بھی باطل ہے اور اس کے وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:
·
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ساتھ مشابہت کی بات ایسی بات ہے
جو عقل اور شریعت دونوں کی رو سے یکسر باطل اور مردود ہے جبکہ یہ امر قطعا ناممکن ہے
کہ کتاب و سنت کی دلالت اور تقاضا غلط اور باطل ہو۔
·
بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اسی طرح خطاب فرمایا ہے
جس طرح وہ اسے اصل معنی کی حیثیت سے سمجھتے ہیں لیکن اس خطاب کے معنی کا جو حصہ اس
کی ذات یا صفات کے بارے میں ہے،اس کی حقیقت کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے یہ فرمایا ہے کہ میں سمیع ہوں
تو سمع اپنے اصل معنی کے اعتبار سے تو معلوم ہے ۔یعنی آوازوں کا ادراک۔لیکن اللہ
تعالیٰ کی سماعت کی نسبت سے اس کے سمیع ہونے کی حقیقت ہمین معلوم نہیں۔ سمع: کی
حقیقت چونکہ مخلوقات میں بھی مختلف ہوتی ہے،اس لیے خالق و مخلوق کے درمیان اس کا
مختلف ہونا اور بھی زیادہ واضح اور عیاں ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں یہ خبر دی ہے کہ وہ
اپنے عرش پر مشتوی ہے تو استوا اپنے اصل معنی کے اعتبار سے یقینا واضح و معلوم ہے
لیکن عرش پر اللہ تعالیٰ کے مستوی ہونے کی نشبت سے اس استوا کی اصل حقیقت کو ٹھیک
اسی طرح مان لینا چاہیے جس طرح کلام الہی نے بیان فرمائی ہے۔یوں بھی اگر دیکھا
جائے تو استوا کی حقیقت مخلوق میں بھی مختلف ہوتی ہے ،چنانچہ کسی مستقر کرسی پر
مستوی ہونا (بلند ہونا)بے قابو ہونے والے اونٹ کے کجاوے پر مستوی ہونے کی طرح نہیں
ہے۔پس یہ چیز جب مخلوق کے معاملے میں مختلف ہے تو خالق و مخلوق کے درمیان یہ
اختلاف کہیں زیادہ واضح اور بڑا ہے۔
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے چند ثمرات
·
اللہ تعالیٰ کی توحید کی تحقیقی اس طرح کہ بندہ اللہ تعالیٰ
کے سوا کسی دوسرے سے ہر گزاُمیدیں وابستہ نہ رکھے،(نہ)کسی دوسرے سے خوفزدہ ہو نہ
کسی اور کی عبادت کرے۔
·
 اسمائے حسنی یعنی
اچھے ناموں اور بلند صفات کے تقاضوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس سےکمال
محبت کرنا۔
·
 تحقیق عبادت یعنی
جن چیزوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے ان کو بجا لانا اور جن چیزوں سے منع
فرمایا ہے ان سے اجتناب کرنا۔

 

دیدہ انجم میں ہے تیری زمیں آسماں

آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضابے اذاں

کون سی وادی میں ہے ، کون سی منزل میں ہے

عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جاں

٭ میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین کو خالق ارض وسماءنے بابرکت قرار دیا ہے (سورة الاسراء 1)

٭ میں وہ مسجد ہوں جس کو دنیا کی افضل ترین قوم نے اپنا قبلہ اول بنایاہے ۔ (بخاری ومسلم)

٭ میں وہ مسجد ہوں جہاں سے حضور پاک ﷺکو معراج کرايا گيا تھا ۔ (مسلم)

٭ میں وہ مسجد ہوں جہاں پر خاتم النبیین محمد ﷺکی اقتداء میں جملہ انبیائے کرام نے نماز ادا فرمائی ۔ (مسنداحمدصحیح)

٭ میں وہ مسجد ہوں جس ميں ايک نمازادا کرنے سے دو سو پچاس نمازوں کا ثواب ملتا ہے ۔ (حاکم، بیہقی صحیح)

٭ میں وہ مسجد ہوں جس ميں دجال کا داخلہ ممنوع ہے۔ (احمد صحیح)

٭ میں وہ مسجد ہوں جسے دنیا کی دوسری مسجدہونے کا شرف حاصل ہے ۔(بخاری ،مسلم)

٭ میں وہ مسجد ہوں جس کا شمار ان تین مساجد میں ہوتا ہے جس کی طرف بغرض عبادت کوچ کرنا جائز ہے ۔ (بخاری ومسلم)

٭ میں وہ مسجد ہوں کہ جو کوئی بھی اس میں نماز پڑھنے کے ارادہ سے آئے وہ (گناہوں سے دھلاہوا) ایسے لوٹتاہے گویاکہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے ۔ (ابن ماجہ صحیح)

٭ میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُتریں گے اور وہیں پر دجال کوبھی قتل کریں گے۔(ترمذی صحیح)

٭ میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین بروزقیامت ارض محشر ہوگی ۔ (احمد،ابوداؤد صحیح)

آج مجھے نسل پرست صہیونیوں نے اپنايرغمال بنارکھاہے ۔آئے دن میرے تقدس کو پامال جارہا ہے۔ میری آبادکاری کےراستے میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں ۔بلکہ مجھے مسمار کرنے کی منظم پالیسی بنالی گئی ہے ۔

میرے دامن میں مسلسل سرنگ کھودے جارہے ہیں تاکہ میں بے بس ہوکر دم توڑدوں اور میری جگہ ہیکل سلیمانی نام کاشیطانی بت نصب کردیا جائے۔

دین اسلام پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جو کچھ بطور دین نازل ہوا ہے ننہ صرف اس کی تصدیق کی جائے بلکہ (دل سے)اسے قبول کرنا اور اس کی پیروی کرنا بھی ضروری ہے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ جو دین لےکرآئےتھے اس کی تصدیق ،اور اس بات کی گواہی کہ یہ دین تمام دینوں سے بہتر ہے،ایمان کا لازمی جزہے۔یہی وجہ ہے کہ ابو طالب رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانےوالوں میں شامل نہیں ہو سکے۔
دین اسلام ان تمام مصلحتوں کا ضامن ہے جن کی ضمانت سابقہ ادیان میں موجود تھی۔اس دین کی امتیازی خصوصیات یہ ہے کہ یہ ہرزمانہ ،ہر جگہ ہر امت کے لیے درست اور قابل عمل ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے رسول (ﷺ)کو مخاطب کرتےہوئے فرماتاہے:
وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ مُصَدِّقًۭا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلْكِتَٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ
 اور ہم نے آپ کی طرف ایک ایسی کتاب بازل کی ہے جو خود بھی سچائی کے ساتھ موصوف ہے،اور اس سےپہلےجو(آسمانی)کتابیں ہیں ان کی بھی تصدیق کرتی ہے اور ان کی محافظ ہے۔ (سورۂ المائدہ آیت 48)
ہر دور،ہر جگہ اور ہر امت کے لیے دین اسلام کے درست اور قابل عمل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس دین کے ساتھ مضبوط تعلق کسی بھی زمانہ ،مقام اور قوم کی مصلحتوں کے ہر گز منافی نہیں ہو سکتا بلکہ یہ تو ان کے عین مطابق ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دین ہر دور ،ہر جگہ اور ہر قوم کا تابع ہے،جیسا کہ بعض کج فہم لوگ سمجھتے ہیں۔
دین اسلام بالکل سچا اور برحق دین ہے ،جو اس کے دامن کو مضبوطی سے تھام لے ،اللہ تعالیٰ نے اس کی مددفرمانےاوراسے غالب کرنے کی ضمانت دی ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُشْرِكُونَ 
اللہ وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے،خواہ مشرکین کویہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ (سورہ الصف،آیت 9)
وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنكُمْ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ كَمَا ٱسْتَخْلَفَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ ٱلَّذِى ٱرْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًۭا ۚ يَعْبُدُونَنِى لَا يُشْرِكُونَ بِى شَيْـًۭٔا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَفَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَٰسِقُونَ 
تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکے ہیں کہ ان کوزمین میں خلافت عطا فرمائے جس طرح ان سے پہلے (اہل ہدایت)لوگوں کو خلافت عطا کی تھی اور جس دین کو (اللہ تعالیٰ نے)انکےلیےپسندفرمایاہےاس دین کو ان کے لیے جما دے گا،اور ان کے خوف و خطر کو امن و امان میں بدل دےگا۔پس وہ میری عبادت کریں،میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو کفر کریں وہ یقینا فاسق ہیں۔ (سورۂ النور،آیت 55)
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک عبادت ہے جو شعائر حج ادا کرنےکی غرض سے بیت اللہ کی زیارت کے ذریعے سے پوری ہوتی ہے۔
حج کے ثمرات:     اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کےلیے مستعد ہونا اور جہاں تک ہو سکے مالی اور جسمانی جدوجہداورقربانی کےلیےاپنے دلوں کو مطیع بنانا اس کے فوائد میں سے ہے۔ حج بھی جہاد فی سبیل اللہ ہی ایک قسم ہے۔
 یاد رہے کہ پہلے ہم نے جن ثمرات کا ذکر کیا ہے،ان کا تعلق اسلام کی بنیاد سے ہے،اور جو چیزیں ہم ذکر نہیں کرپائےان میں سےبہت سی ایسی ہیں جو ایک قوم کو پاک صاف،اللہ تعالیٰ کے دین حق پر ثابت قدم اور مخلوق کے ساتھ عدل و سچائی کا معاملہ کرنےوالی عظیم اسلامی امت بنا دیتی ہیں۔کیونکہ ان کے علاوہ جو بھی شرائع اسلام ہیں ان کی درستی بھی انھی بنیادوں پر منحصرہے۔کسی قوم کے حالات،اس کے دینی امور کی درستی ہی سے ٹھیک ہوتے ہیں۔پس جس امت کے دینی معاملات مین جس قدر بگاڑموجودہوگا،اسی نسبت سے اس کے حالات و معاملات ابتر ہوں گے۔جو شخص اس حقیقت کی وضاحت کا خواہش مند ہو،اسے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پوری توجہ سے پڑھ لینا چاہیے:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ ٱلْقُرَىٰٓ ءَامَنُوا۟ وَٱتَّقَوْا۟ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَٰتٍۢ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا۟ فَأَخَذْنَٰهُم بِمَاكَانُوا۟يَكْسِبُونَ ﴿٦٩96أَفَأَمِنَ أَهْلُ ٱلْقُرَىٰٓ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَٰتًۭا وَهُمْ نَآئِمُونَ ﴿97٧٩﴾أَوَأَمِنَ أَهْلُ ٱلْقُرَىٰٓ أَن يَأْتِيَهُم  بَأْسُنَا ضُحًۭى وَهُمْ يَلْعَبُونَ ﴿٨٩98أَفَأَمِنُوا۟ مَكْرَ ٱللَّهِ ۚ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْقَوْمُ ٱلْخَٰسِرُونَ ﴿٩٩99
اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور پرہیز گاری اختیار کرتے تو ہم سن پر آسمان اور زمین سے برکتیں نچھاور کر دیتے لیکن انہوں نےجھٹلایا ،پس ہم نے ان کو ان کے اعمال کے بدلے میں پکڑ لیا،کیا بستیوں والے اس بات سے بے خوف ہوگئےہیں کہ ان پرہماراعذاب راتوں رات آ پہنچے،جبکہ وہ (بے خبر)سو رہے ہوں،اور کیا بستیوں والے اس بات سےبےخوف ہیں کہ ان پر دن چڑھےہمارا عذاب آ پہنچے،اس حال میں کہ وہ کھیلتے ہوں۔کیا وہ اللہ کے داؤ سے بے خوف ہو گئے ہیں؟سنو ! اللہ کے خوف سےگھاٹاپانےوالی قوم کے علاوہ کوئی بے فکر نہیں ہوتا۔ (سورۂ الاعراف،آیت96تا99)
اگر سابقہ لوگوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس میں عقل و خرد کے لیے عبرت اور جن کے دلوں پر پردے نہیں پڑے ہوئے،ان کے لیے بصیرت کا بڑاسامان موجود ہے۔
حضرت انس بن نضر ؓایک صحابی تھے جوبدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہو سکے تھے ۔ ان کو اس چیزکاصدمہ تھا اس پر اپنے نفس کو ملامت کرتے تھے کہ اسلام کی پہلی عظیم الشان لڑائی اور تو اس میں شریک نہ  ہوسکا۔ اس کی تمنا تھی کہ کوئی دوسری لڑائی ہو تو حوصلے پورے کروں ۔ اتفاق سے احد کی لڑائی پیش آگئی جس میں یہ بڑی بہادری اور دلیری سے شریک ہوئے ۔ احد کی لڑائی میں اول اول تو مسلمانوں کو فتح ہوئی  تو کافروں کو بھاگتا ہوا دیکھ کر یہ لوگ بھی اپنی جگہ سے یہ سمجھ کر ہٹ گئے کہ اب جنگ ختم ہوچکی اسلئےبھاگتے ہوئے کافروں کاپیچھا کیا جائے اور غنیمت کا مال حاصل کیا جائے۔ اس جماعت کےسردارنے منع بھی کیا کہ حضور کی ممانعت تھی ۔تم یہاں سے نہ ہٹو ۔مگر ان لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ حضور کاارشاد صرف لڑائی کے وقت کے واسطے تھا ۔ وہاں سے ہٹ کر میدان میں پہنچ گئے۔بھاگتےہوئے کافروں نے اس جگہ کو خالی دیکھ کر اس طرف سے آکر حملہ کر دیا۔ مسلمان بےفکرتھے اس اچانک بے خبری کے حملہ سے مغلوب ہوگئے اور دونوں طرف سے کافروں کے بیچ میں آگئےجس کی وجہ سے اِدھر اُدھر پریشان بھاگ رہے تھے۔ حضرت انسؓ نے دیکھا کہ سامنےسےایکدوسرے صحابی حضرت سعد بن معاذ ؓآرہے ہیں ۔ ان سے کہا کہ اے سعد کہاں جارہے ہو، خدا کی قسم جنت کی خوشبو احد کے پہاڑ سے آرہی ہے ۔ یہ کہہ کر تلوارتو ہاتھ میں تھی ہی کافروں کی ہجوم میں گھس گئے اور اتنے شہید نہیں ہو گئے واپس نہیں ہوئے شہادت کے بعد ان کے بدن کو دیکھا گیا تو چھلنی ہو گیاتھا۔ اسی سے زیادہ زخم تیر اور تلوار کے بدن پر تھے ،اُن کی بہن نے اُنگلیوں کےپوروں سے اُن کو پہچانا۔
جو لوگ اخلاص اور سچی طلب کےساتھ اللہ کے کام میں لگ جاتےہیں اُن کو دنیا ہی میں جنت کا مزہ آنے لگتا ہے ۔ یہ حضرت انسؓزندگی ہی میں جنت کی خوشبو سونگھ رہے تھے۔ اگراخلاص آدمی میں ہو جاوے تو دنیا میں بھی جنت کا مزہ آنے لگتاہے۔ میں نےایک معتبرشخص سے جو حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری ؒ کے مخلص خادم ہیں حضرت کا مقولہ سنا ہے کہ ’’جنت کا مزہ آرہا ہے”