محفوظ کریں

Daily Archives: نومبر 26, 2012

افضل يہ ہے كہ پانى سے استنجا كيا جائے جيسا كہ حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ يہ آيت  فِيْهِ رِجَالٌ يُحِبُّوْنَ أنْ يَّتَطَهَّرُوْا وَاللهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِرِيْنَ  (التوبہ 108) اہل قبا كے بارے ميں ناز ل ہوئى كيونكہ كانوا يستنجون بالماء وہ پانى كے ساتھ استنجا كرتے تهے۔ (ابوداود 144)
 پانى كے ساتھ استنجا كرنے والوں كے بارے ميں اللہ تعالىٰ كا اظہارِ محبت كرتے ہوئے آيت نازل فرما دينا اس با ت كا قطعى ثبوت ہے كہ پانى سے ہى استنجا كرنا افضل ہے۔
 علامہ عينى رحمہ اللہ رقم طراز ہيں كہ پانى (سے استنجا كرنا) افضل ہے ،كيونكہ يہ نجاست كى ذات اور اثر كو زائل كرديتا ہے۔ (عمدة القارى 2/ 276)
 يہاں يہ بات ياد رہے كہ پانى كے ساتھ استنجا كے افضل ہونے كا يہ مطلب نہيں ہے كہ صرف پانى كے ساتھ ہى استنجا كرنا واجب ہے۔
 شيخ امين اللہ پشاورى فرماتے ہيں كہ:ولا يجب الاستنجاء بالماء كما يظنه العوام پانى كے ساتھ استنجاكرنا واجب نہيں ہے، جيسا كہ عوام يہ گمان ركهتے ہيں۔ (فتاوىٰ الدين الخالص 1/386)
 لہٰذا پانى كے علاوہ ڈھيلوں كااستعمال بهى مباح و درست ہے اور عہد ِرسالت ميں نبى ﷺاور صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين اكثر اوقات انہى سے استنجا كيا كرتے تهے، جيسا كہ ايك حديث ميں ہے كہ :نبى ﷺنے قضائے حاجت كيلئے جاتے ہوئے حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ كو 3 پتهر لانے كا حكم ديا۔ (بخارى 152)
 اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ نبى نے پانى كے علاوہ مٹى كے ڈھيلوں سے ہى بالآخر كيوں استنجا كيا؟
يہى بات پيش نظر ركهتے ہوئے ريسرچ كى گئى تو يہ بات سامنے آئى كہ مٹى ميں

(Ammonium Chloride)

نوشادر اور اعلىٰ درجے كے دافع تعفن اجزا موجود ہيں۔

ڈهيلے كے استعمال نے سائنسى اور تحقيقى دنيا كو ورطہ حيرت ميں ڈال ركها ہے ،كيونكہ مٹى كے تمام اجزا جراثيموں كے قاتل ہيں۔جب ڈهيلے كا استعمال ہوگا تو پوشيدہ اعضا پر مٹى لگنے كى وجہ سے ان پر بيرونى طور پر لگے تمام جراثيم مرجائيں گے،
سے بچاتا ہے۔ (سنت ِنبوى اور جديد سائنس 1/191) (Cancer of Penis)بلكہ مٹى كا استعمال
شرمگاہ كے كينسرمعلوم ہوا كہ محسن انسانيت نے پانى كے علاوہ ڈهيلوں كا حكم يونہى نہيں ديا، بلكہ اس لئے ديا كہ اس ميں اُمت ِمسلمہ كے لئے بے شمار فوائد مضمر تهے۔
تاہم اہل علم نے پانى اور ڈهيلوں كے سوا ہر اس پاك چيز سے بهى استنجا كى اجازت دى ہے جو طہارت و نظافت ميں ان كے قائم مقام ہو اور نجاست كا اثر زائل كردے۔
امام شوكانى رحمہ اللہ رقم طراز ہيں كہ :(قضائے حاجت كرنے والے پر) 3ڈهيلوں يا ان كے قائم مقام كسى پاك چيز سے استنجا كرنا لازم ہے۔ (الدّرر البہية باب قضاء الحاجة)
ايك اور مقام پر فرماتے ہيں :شارع نے جس چيز كے استعمال كى اجازت دى ہے، اس كے ساتھ استنجا كا حكم اس لئے ہے كہ نجاست كا اثر مٹ جائے اور اس كى ذات ختم ہوجائے ۔
اور شارع نے جس چيز كے ساتھ استنجا كرنے سے منع كيا ہے وہ (اس عمل ميں) كفايت كرنے والى نہيں اور جس سے منع نہيں كيا، اگر وہ چيز محترم نہ ہو اور نہ ہى اس كا استعمال مضر ہو تو وہ كفايت كرجائے گى۔ (السيل الجرار 1/202)
اس سے ظاہر ہوا کہ استنجا ہر ايسى جامد، پاك،(نجاست كى) ذات كو زائل كردينے والى چيز سے جائز ہے جو پتهر كے قائم مقام ہو اور نہ تو وہ چيز قابل احترام ہو اور نہ ہى كسى حيوان كا جز ہو، مثلاً لكڑى، كپڑے كا ٹكڑا، اينٹ اور ٹهيكرى وغيرہ ۔
لكڑى ، كپڑا اور ہر وہ چيز جس كے ذريعے صفائى كى جاسكے ،وہ (استنجا ميں) پتهروں كى مانند ہى ہے۔
 شيخ امين اللہ پشاورى حفظہ اللہ فرماتے ہيں كہ :اور ان رومالوں سے بهى استنجا كرنا جائز ہے جو (بطورِ خاص) اسى لئے تيار كئے جاتے ہيں۔ (فتاوىٰ الدين الخالص 1/386)
نبى ﷺنے 3پتهروں كے ساتھ استنجا كرنے كا حكم ديا اور يہ بهى فرمايا كہ ہڈى اور گوبر كے ساتہ استنجا نہ كيا جائے۔ (ابوداود 41، مسلم 1/223، كتاب الطهارة)
اگر آپ كا مقصود پتهر اور اس كے قائم مقام ہر چيز كے ساتھ استنجا كى اجازت دينا نہ ہوتا تو آپ كبهى ہڈى اور گوبر كو بطورِ خاص مستثنىٰ نہ كرتے۔ اس استثنا سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كے علاوہ تمام اشيا سے استنجا كيا جاسكتا ہے۔
 ٹائلٹ پيپر ايك ايسا نرم ملائم اور لطيف كاغذ ہے جو اہل يورپ كى ايجاد ہے اور اسے خاص طور پر استنجا كيلئے تيار كيا جاتا ہے۔ بظاہر يہى معلوم ہوتا ہے كہ ٹائلٹ پيپر كے استعمال ميں بهى كوئى حرج نہيں، ليكن يہ ياد رہے كہ اس پيپر كى تيارى ميں جو مختلف قسم كے كيميكلز استعمال كئے جاتے ہيں،وہ انتہائى مہلك ہيں۔ان سے جلدى امراض ،ايگزيمااور جلد ميں رنگت كى تبديلى كے امراض پيدا ہوسكتے ہيں۔ اس وقت تمام اہل يورپ يہى پيپر استعمال كررہے ہيں۔ اس وقت يورپ ميں شرم گاہ كے مہلك امراض خاص طور پر كينسر تيزى سے پهيل رہا ہے۔ تحقيقى بورڈ كى رپورٹ صرف دو چيزيں تهيں كہ ٹائلٹ پيپر كا استعمال كرنا اور پانى كا استعمال نہ كرنا۔ (سنت ِنبوى اور جديد سائنس 1/191)
 ٹائلٹ پيپر كے استعمال كى دو ہى صورتيں ہوسكتى ہيں:
1-غیر مستقل استعمال
2-پانى اور مٹى كى غير موجودگى ميں استعمال
درج بالا مضر اثرات و نتائج كى وجہ سے اسے مستقل استعمال كرنے سے اجتناب ہى بہتر ہے۔ تاہم اگر اس كے استعمال سے كسى ضرر كا انديشہ نہ ہو يا اس كے بعد پانى استعمال كرليا جائے يا پانى اور مٹى كى غير موجودگى ميں اسے استعمال كيا جائے تو اُميد ہے كہ ايسا كرنے والے پر كوئى گناہ نہ ہوگا۔ آج کل کے جدید واش رومز میں ڈھیلوں کی دستیابی اور ان کا استعمال بھی عملاََ ممکن نہیں۔ ایسے واش رومز میں اس کا بہترین متبادل ٹوائلیٹ پیپرز یا ٹشو پیپرز ہیں۔ ٹوائیلیٹ یا ٹشو پیپرز کی خراب کوالٹی کو بنیاد بنا کر اسے مشکوک نہیں بنانا چاہئے۔ اور مغرب میں بہت سے غیر مسلم پانی کے بغیر صرف ان ٹشوز ہی کو استعمال کرتے ہیں، اسی لئے انہیں مختلف امراض آگھیرتے ہیں۔ مسلمان ممکنہ حد تک پانی کو لازماََ استعمال کرتے ہیں۔ پانی کے استعمال سے قبل اور بعد ٹشوز کا استعمال طہارت کو مزید یقینی بناتا ہے اور قطروں کے امراض والوں کے لئے ٹشوز کا استعمال بہت مفید ہے۔

دوسری صدی ہجری کے اوائل میں یہ فرقہ معرض وجود میں آیا اس فرقے کا بانی واصل بن عطاء الغزال تھا اور اس کا سب سے پہلا پیروکار عمرو بن عبید تھا جو حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا شاگرد تھا ان لوگوں کو اہل سنت والجماعت کے عقائد سے الگ ہوجانے کی بناء پر معتزلہ کہا جاتاہے۔ معتزلہ کے مذہب کی بنیاد عقل پر ہے کہ ان لوگوں نے عقل کو نقل پر ترجیح دی ہے عقل کے خلاف قطعیات میں تاویلات کرتے ہیں اور ظنیات کا انکار کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ کے افعال کو بندوں کے افعال پر قیاس کرتے ہیں بندوں کے افعال کے حسن وقبح کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے افعال پر حسن وقبح کا حکم لگاتے ہیں خلق اور کسب میں کوئی فرق نہیں کرپاتے ان کے مذہب کے پانچ اصول ہیں
1-عدل 2-توحید 3-انفاذ وعید4-منزلة بین منزلتین 5-امر بالمعروف ونہی عن المنکر
1-عقیدہٴ عدل کے اندر درحقیقت انکارِ عقیدہ تقدیر مضمر ہے ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ شرکا خالق نہیں اگر اللہ تعالیٰ کو شرکا خالق مانیں تو شریر لوگوں کو عذاب دینا ظلم ہوگا جوکہ خلاف عدل ہے جبکہ اللہ تعالیٰ عادل ہے ظالم نہیں۔
2-ان کی توحید کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اور قرآن کریم مخلوق ہیں اگر انہیں غیر مخلوق مانیں تو تعدد قدماء لازم آتاہے جو توحید کے خلاف ہے۔
3-وعید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو جو عذاب بتلائے ہیں اور جو جو وعیدیں سنائی ہیں گنہگاروں پر ان کو جاری کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے اللہ تعالیٰ کسی کو معاف نہیں کرسکتا اور کسی گنہگار کی توبہ قبول نہیں کرسکتا  اس پر لازم ہے کہ گناہ گار کو سزا دے جیساکہ اس پر لازم ہے کہ نیک کو اجر وثواب دے ورنہ انفاذ وعید نہیں ہوگا۔
4-منزلة بین منزلتین کا مطلب یہ ہے کہ معتزلہ ایمان اور کفر کے درمیان ایک تیسرا درجہ مانتے ہیں اور وہ مرتکب کبیرہ کا درجہ ہے ان کے نزدیک مرتکب کبیرہ یعنی گناہ گار شخص ایمان سے نکل جاتاہے اور کفر میں داخل نہیں ہوتا گویا نہ وہ مسلمان ہے اور نہ کافر۔
5-امر بالمعروف کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ جن احکامات کے ہم مکلف ہیں دوسرں کو ان کاحکم کریں اور لازمی طور پر ان کی پابندی کروائیں اور نہی عن المنکر یہ ہے کہ اگر امام ظلم کرے تو اس کی بغاوت کرکے اس کے ساتھ قتال کیا جائے  معتزلہ کے یہ تمام اصول اور ان کی تشریحات عقل وقیاس پر مبنی ہیں ان کے خلاف واضح آیات واحادیث موجود ہیں نصوص کی موجودگی میں عقل وقیاس کو مقدم کرنا سراسر غلطی اور گمراہی ہے۔