محفوظ کریں

Daily Archives: ستمبر 8, 2012

قرآنِ کریم میں جن  جانوروں ، پرندوں اور حشرات الارض کا ذکر ہے ان کا مختصر حال:
اونٹ: الانعام 144، الغاشیہ 17
گائے: الانعام144 ، 146
بکری: الانعام 143،146 القصص23
دنبہ،بھیڑ: الانعام 143
گھوڑا: النحل 08
کتا: الکھف18،22 المائدہ04
گدھا: النحل 08 ، البقرہ 25
خچر: النحل 08
خنزیر: البقرہ 173،المائدہ 03 ،الانعام145
مکھی: الحج:73
مچھر: البقرہ 26
جیونٹی: النمل 18
کوا: المائدہ 31
مکڑا: العنکبوت41
ھدھد: النمل 20
مچھلی: الکھف63 ،الانبیاء 87 ،الصافات142 ، القلم 48

 

 

 


امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ
محمد بن ادریس بن العباس بن عثمان بن شافع بن السائب بن عبید بن عبد زید ابن ھاشم بن المطلب بن عبد مناف القرشی۔ یہ سید المرسلین سیدنا محمد ابن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ” عبد مناف ” کے ذریعے ملتے ہیں. شافعی قریشی ہیں اور والدہ کی طرف سے (مشہور قول کی بنا پر کہ) آپ کی والدہ ایک شریف قبیلہ الأزد سے تھیں جن کا نام السيدة فاطمہ ( أم حبيبہ ) الأزديہ تھا، یہ قبیلہ یمن کہ السعید سے تعلق رکھتا تھا.
حالات زندگی
آپ ماہ رجب سال 150ھ بمطابق 768ء میں شہر غزہ ، فلسطین میں پیدا ہوئے۔ آپکے والد مکہ مکرمہ سے مسلمین کے ساتھ ہجرت کر کے فلسطین آگئے تھے ، اسکے بعد غزہ و عسقلان میں بھی رہے۔ امام شافعی کی ولادت کے بعد کچھ دنوں ہی میں انکے والد کا انتقال ہوگیا۔ انکی والدہ انکو واپس مکہ لے آئیں اور وہیں انکی علمی تربیت ہوئی۔ آپ امام مالک کے شاگرد بھی رہے ، اور آپ کی عمر کا بیشتر حصہ مکہ ، مدینہ ، بغداد اور مصر میں گزرا اور آخرکار مصر ہی میں وفات پائی۔ آپ اپنے زمانہ کے بہت بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ عربی زبان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ اور اعلٰی درجہ کے انشاپرداز تھے۔ آپ کی دو کتب (کتاب الام) اور (الرسالہ) کو شہرت دوام حاصل ہوئی۔ صدیوں تک مصر عرب ، شام ، عراق ، اور ایران میں آپ کی قابلیت کا چرچہ رہا۔
تصانیف
الرسالہ القدیمہ
الرسالہ الجدیدۃ
اختلاف الحدیث
جماع العلم
ابطال الاستحسان
احکام القرآن
بیاض الغرض
صفہ الامر والنھی
اختلاف العراقیین
فضائل قریش
کتاب الام
کتاب السُنَن
کتاب المبسوط
المسند الشافعی

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ
780؁کو پیدا ہوئے اور 855؁کو وفات پائی۔ اپنے دور کے بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ آپ امام شافعی کے شاگرد ہیں۔ اپنے زمانہ کے مشہور علمائے حدیث میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے (مسند) کے نام سے حدیث کی کتاب تالیف کی جس میں تقریباً چالیس ہزار احادیث ہیں۔ امام شافعی کی طرح امام احمد بن حنبل کی مالی حالت بھی کمزور تھی۔ لوگ انہیں بے شمار تحائف اور ہدیہ پیش کرتے لیکن آپ اپنے اوپر اس میں سے کچھ بھی نہ صرف کرتے سب کچھ بانٹ دیتے ۔
خلیفہ معتصم کی رائے سے اختلاف کی پاداش میں آپ نے کوڑے کھائے لیکن غلط بات کی طرف رجوع نہ کیا۔ آپ کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہو جاتے لیکن غلط بات کی تصدیق سے انکار کر دیتے۔ انہوں نے حق کی پاداش میں جس طرح صعوبتیں اٹھائیں اُس کی بنا پر اتنی ہردلعزیزی پائی کہ وہ لوگوں کے دلوں کے حکمران بن گئے۔ ان کے انتقال کے وقت آٹھ لاکھ سے زیادہ اشخاص بغداد میں جمع ہوئے اور نماز جنازہ پڑھی۔ عباسی خلافت کے آخری دور میں فقہ حنبلی کا بڑا زور تھا۔ پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی بھی حنبلی تھے۔ آج کل ان کے پیروکاروں کی تعداد گھٹ کر عرب کے علاقے نجد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ حنبلی علماء میں ابن تیمیہ کا شمار صف اول کے لوگوں میں کیا جاتا ہے۔
آپ کی عمر کا ایک طویل حصہ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں بسر ہوا۔ پاؤں میں بیڑیاں پڑی رہتیں، طرح طرح کی اذیتیں دی جاتیں تاکہ آپ کسی طرح خلق قرآن کے قائل ہو جائیں لیکن وہ عزم و ایمان کا ہمالہ ایک انچ اپنے مقام سے نہ سرکا۔ حق پہ جیا اور حق پہ وفات پائی۔
حنبلی
شریعت اسلامی کی اصطلاح میں امام احمد بن محمد بن حنبل کی فقہ پر عمل کرنے والے مسلمان حنبلی کہلاتے ہیں۔
اسلوب فقہ
حنابلہ فقہی معاملات میں قیاس یا رائے کو نہیں مانتے اور اپنی فقہ کی بنیاد زیادہ تر قرآن اور حدیث پر رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک حدیث کی دیگر کتب میں مسند احمد بن حنبل کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
آج کے دور میں
دیگر اسلامی فقھوں کے تناسب سے اس وقت حنبلی فقہ کے مقلدین کی تعداد سب سے کم ہے۔ چودھویں صدی عیسوی تک ان کی تعداد کافی تھی اور شام و فلسطین کے علاقوں میں ان کا بہت زور تھا۔ امام ابن تیمیہ بھی فقہ حنبلی کے مقلد تھے۔ عثمانی ترکوں کی خلافت سے قبل ہر بڑے اسلامی شہر میں دیگر تینوں اسلامی فقھوں کے علاوہ حنبلی قاضی بھی مقرر کیے جاتے تھے مگر ترکوں نے یہ رسم ترک کر دی۔