حجۃ الوداع کی تفصیل حضرت جابر کی زبانی:02
اونٹ جو آنحضرت ﷺخود آپ نے ہمراہ لائے تھے، سب کی مجموعی تعداد سو تھی۔ حضرت جابر
کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺکے ارشاد کے مطابق سب لوگوں نے کہ جن کے ساتھ قربانی کا
جانور نہیں تھا عمرہ کر کے، احرام کھول دیا، اپنے سروں کے بال کٹوادئیے مگر آنحضرت
ﷺاور وہ لوگ جن کے ساتھ قربانی کے جانور تھے احرام کی حالت میں رہے پھر جب ترویہ
کا دن آیا یعنی ذی الحجہ کی آٹھویں تایخ آئی تو سب لوگ منیٰ کی طرف روانہ ہونے کے
لئے تیار ہوئے چنانچہ ان صحابہ نے کہ جو عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد احرام سے نکل
آئے تھے حج کا احرام باندھا اور آنحضرت ﷺبھی آفتاب طلوع ہونے کے بعد سوار ہوئے اور
منیٰ پہنچ گئے منیٰ کی مسجد خیف میں ظہر وعصر، مغرب عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھی
گئیں اور نویں تاریخ کی فجر کی نماز پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر قیام کیا یہاں تک کہ
آفتاب نکل آیا اور آنحضرت ﷺنے حکم دیا کہ آپ
ﷺکے لئے وادی نمرہ عرفات میں خیمہ
نصب کیاجائے جو بالوں کا بنا ہوا تھا پھر رسول کریم ﷺمنیٰ سے عرفات کو روانہ ہوئے
قریش کو گمان تھا کہ آنحضرت ﷺمشعر حرام مزدلفہ میں قیام کریں گے جیسا کہ قریش
زمانہ جاہلیت میں حج کے موقعہ پر کیا کرتے تھے مگر رسول کریم ﷺمزدلفہ سے آگے بڑھ
گئے یہاں تک کہ جو میدان عرفات میں آئے اور وادی نمرہ میں آپ نے خیمہ کو کھڑا پایا
چنانچہ آپ ﷺاس میں آگرے اور قیام کیا یہاں
تک کہ جب دوپہر ڈھل گیا توقصواء کو جو آپ ﷺکی
اونٹنی کا نام تھا، لانے کا حکم دیا جب قصواء آگئی تو اس پر پالان کس دیا گیا ور آپ
ﷺاس پر سوار ہو کر وادی نمرہ میں تشریف
لائے اور لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن عرفہ میں تمہارے اس مہینہ ذی الحجہ میں اور تمہارے
اس شہر (مکہ میں حرام ہیں یعنی جس طرح تم عرفہ کے دن ذی الحجہ کے مہینہ میں اور
مکہ مکرمہ قتل و غارت گری اور لوٹ مار کو حرام سمجھتے ہو اسی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے
لئے اور ہر جگہ ایک مسلمان کی جان و مال دوسرے پر حرام ہے لہٰذا تم میں سے کوئی
بھی کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ کسی کا خون نہ کر کسی کا مال چوری و دغابازی سے
نہ کھا جائے اور کسی کو کسی جانی اور مالی تکلیف و مصیبت میں بھی مبتلا نہ کرے)
نیچے ہے اور پامال و بے قدر یعنی موقوف باطل ہے لہٰذا اسلام سے پہلے جس نے جو کچھ
کیا میں نے وہ سب معاف کیا اور زمانہ جاہلیت کے تمام رسم و رواج کو موقوف و ختم کر
دیا زمانہ جاہلیت کے خون معاف کر دیئے گئے ہیں لہٰذا زمانہ جاہلیت میں اگر کسی نے
کسی کا خون کر دیا تھا تو اب نہ اس کا قصاص ہے نہ دیت اور نہ کفارہ بلکہ اس کی
معافی کا اعلان ہے اور سب سے پہلا خون جسے میں اپنے خونوں سے معاف کرتا ہوں ربیعہ
بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔ جو ایک شیر خوار بچہ تھا اور قبیلہ بنی سعد میں دودھ
پیتا تھا اور ہزیل نے اس کو مار ڈالا تھا۔ زمانہ جاہلیت کا سود معاف کر دیا گیا ہے
اور سب سے پہلا سود جسے میں اپنے سودوں سے معاف کرتا ہوں عباس بن عبدالمطلب کا سود
ہے لہٰذا وہ زمانہ جاہلیت کا سود ہے لہٰذا وہ زمانہ جاہلیت کا سود بالکل معاف کر
دیا گیا ہے۔
عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو، تم نے ان کو خدا کی امان کے ساتھ لیا ہے یعنی
ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کو عزت و احترام کے ساتھ رکھنے کا جو عہد خدا نے تم
سے لیا ہے یا اس کا عہد جو تم نے خدا سے کیا ہے اسی کے مطابق عورتیں تمہارے پاس
آئی ہیں، اور ان کی شرم گاہوں کو خدا کے حکم سے (یعنی فانکحوا کے مطابق رشتہ زن و شو قائم کر کے) اپنے لئے
حلال بنایا ہے اور عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی ایسے شخص
کو نہ آنے دیں جس کا آنا تم کو ناگوار گزرے یعنی وہ تمہارے گھروں میں کسی کو بھی
تمہاری اجازت کے بغیر نہ آنے دیں خواہ وہ مرد ہو یا عورت، پس اگر وہ اس معاملہ میں
نافرمانی کریں کہ تمہاری اجازت کے بغیر کسی کو گھر آنے دیں اور ڈانٹ ڈپٹ کے بعد
بھی وہ اس سے باز نہ آئیں تو تم اس کو مارو مگر اس طرح نہ مارو جس سے سختی و شدت
ظاہر ہو اور انہیں کوئی گزند پہنچ جائے اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کو اپنی
استطاعت و حیثیت کے مطابق کھانے پینے کا سامان اور مکان اور کپڑا دو۔
میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑتا ہوں جس کو اگر تم مضبوطی سے تھانے رہو گے تو
میرے بعد (یا اس کو مضبوطی سے تھامے رہنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد) تم ہرگز
گمراہ نہیں ہو گے اور وہ چیز کتاب اللہ ہے اور اے لوگو! میرے بارے میں تم سے پوچھا
جائے گا کہ میں نے منصب رسالت کے فرائض پوری طرح انجام دئیے یا نہیں ؟ اور میں نے
دین کے احکام تم تک پہنچا دئیے یا نہیں؟ تو تم کیا جواب دو گے؟ اس موقع پر صحابہ
نے (بیک زبان) کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ ﷺنے
دین کو ہم تک پہنچا دیا اپنے فرض کو ادا کر دیا اور ہماری خیر خواہی کی۔
بعد آنحضرت ﷺنے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا بایں طور کہ اسے آسمان کی طرف
اٹھایا اور پھر لوگوں کی طرف جھکا کر تین مرتبہ یہ کہا کہ:
اپنے بندوں کے اس اقرار اور اعتراف پر تو گواہ رہ اے اللہ! تو گواہ رہ۔
اس کے بعد حضرت بلال ؓ نے اذان دی اور اقامت کہی
اور ظہر کی نماز پڑھی گئی پھر دوبارہ اقامت کہی گئی اور عصر کی نماز ہوئی اور ان
دونوں نمازوں کے درمیان کوئی چیز یعنی سنت و نفل نہیں پڑھی گئی پھر آنحضرت ﷺسوار
ہوئے اور میدان عرفات میں ٹھہرنے کی جگہ پہنچے وہاں اپنی اونٹنی قصواء کا پیٹ
پتھروں کی طرف کیا اور جبل مشاۃ یہ ایک جگہ کا نام ہے اپنے آگے رکھا پھر قبلہ کی
طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا، زردی بھی تھوڑی سی جاتی
رہی اور آفتاب کی ٹکیہ غائب ہو گئی۔ آپ ﷺنے حضرت اسامہ ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا اور
تیز تیز چل کر مزدلفہ آ گئے یہاں ایک اذان اور دو تکبیروں کے ساتھ مغرب و عشاء کی
نمازیں پڑھیں اور ان دونوں نمازوں کے درمیان اور کچھ نہیں پڑھا پھر آپ ﷺلیٹ گئے
یہاں تک کہ جب فجر طلوع ہو گئی تو آپ ﷺنے صبح کی روشنی پھیل جانے پر اذان و اقامت
کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی پھر آپ ﷺاونٹنی پر سوار ہو کر مشعر حرام میں آئے اور
وہاں قبلہ رو ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ تکبیر کہی۔ لا الہ اللہ پڑھا اور خدا کی وحدانیت کی
یعنی لا الہ الااللہ وحدہ لا شریک لہآخر
تک پڑھا وہیں کھڑے تکبیر و تہلیل وغیرہ میں مصروف رہے یہاں تک کہ صبح خوب روشن ہو
گئی تو سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے چلے اور حضرت فضیل بن عباس ؓ کو اپنے پیچھے
سوار کیا جب وادی محسر میں پہنچے تو اپنی سواری کو تیز چلانے کے لئے تھوڑی سی حرکت
دی اور اس درمیانی راہ پر ہو لئے جو جمرہ کبریٰ کے اوپر نکلتی ہے تاآنکہ آپ اس
جمرہ کے پاس پہنچے جو درخت کے قریب ہے اور اس پر سات کنکریں ماریں اس طرح کہ ان
میں سے ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے تھے اور وہ کنکریاں باقلہ کے دانہ کے برابر
تھیں اور آپ ﷺنے وہ کنکریاں نالے یعنی وادی کے درمیان سے ماریں اس کے بعد قربانی
کرنے کی جگہ جو منیٰ میں ہے واپس آئے اور یہاں آپ ﷺنے اپنے دست مبارک سے تریسٹھ
اونٹ ذبح کئے اور باقی اونٹ حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے سپرد کئے چنانچہ باقی
سینتیس اونٹ حضرت علی ؓ نے ذبح کئے۔ آنحضرت ﷺنے حکم دیا کہ ہر اونٹ میں سے گوشت کا
ایک ٹکڑا لیا جائے چنانچہ وہ سب گوشت لے کر ایک ہانڈی میں ڈال دیا گیا اور اسے
پکایا گیا جب گوشت پک گیا تو آنحضرت ﷺاور حضرت علی ؓ نے قربانی کے اس گوشت میں سے
کھایا اور اس کا شوربہ پیا۔ آنحضرت ﷺسوار ہوئے اور خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہو گئے،
وہاں پہنچ کر طواف کیا اور مکہ میں ظہر کی نماز پڑھی پھر عبدالمطلب کی اولاد یعنی
اپنے چچا حضرت عباس اور ان کی اولاد کے پاس تشریف لائے جو زمزم کا پانی پلا رہے
تھے آپ ﷺنے ان سے فرمایا۔ عبدالمطلب کی اولاد زمزم کا پانی کھینچو اور پلاؤ کہ یہ
بہت ثواب کا کام ہے اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ تمہارے پانی پلانے پر
غلبہ پا لیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچتا ابھی اس بات کا خوف ہے کہ لوگ
مجھے پانی کھینچتا دیکھ کر میری اتباع میں خود بھی پانی کھینچنے لگیں گے اور یہاں
بہت زیادہ جمع ہو جائیں گے جس کی وجہ سے زمزم کا پانی کھینچنے اور پلانے کی یہ
سعادت تمہارے ہاتھ سے چلی جائے گی اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا تو میں خود بھی تم
لوگوں کے ساتھ پانی کھینچتا اور لوگوں کو پلاتا، چنانچہ عبدالمطلب کی اولاد نے آپ ﷺکو
پانی کا ایک ڈول دیا جس میں سے آپ ﷺنے پانی پیا۔ (مسلم)
جاری ہے
baray arse baad email ki he aap ne
Date: Mon, 30 May 2016 10:17:23 +0000
To: asif_wagan@hotmail.com