حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ
مدد کرتے اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرکے اس کی رضا کے طلب گار رہتے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، مالی مشکلات کے باعث مجاہدین کی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہوگیا تھا، مدینہ میں بھی قحط کا زمانہ تھا۔ کئی مجاہدین صرف اس لیے واپس کردیے گئے کہ آنحضرت ﷺکےپاس انہیں دینے کے لیے سواریاں میسر نہ تھیں۔ اس موقع پر رسول اللہ ﷺنے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں اور اس کا بدلہ و ثواب اللہ ہی سے پانے کی نیت کریں۔ مسلمانوں نے آنحضرت ﷺکے حکم پر لبیک کہتے ہوئے خوب مال خرچ کیا۔ اس موقع پر حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف بھی خرچ کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔ انہوں نے دو سو اوقیہ (ایک اوقیہ ساڑھے دس تولہ کے برابر ہے) بارگاہِ رسالت میں پیش کیے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے
کہا: میں سمجھتا ہوں کہ عبدالرحمن بن عوف ؓ ایسا کرکے ایک گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے اہل و عیال کی ضروریات کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے۔ اور جب رسول اللہ ﷺنے آپؓ سے دریافت کیا کہ عبدالرحمن! تم نے بچوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے؟ تو آپؓ نے فرمایا: ہاں، میں نے ان کے لیے جو کچھ چھوڑا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ اور بہتر ہے جو میں نے خرچ کیا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے اپنی ایک زمین چالیس ہزار دینار میں فروخت کی اور وہ ساری رقم قبیلہ بنو زہرہ، ضرورت مند مسلمانوں، مہاجرین اور امہات المومنین میں تقسیم کردی۔ جب حضرت عائشہؓ کے حصے کی رقم ان کے پاس پہنچی تو انہوں نے دریافت کیا کہ یہ رقم کس نے بھیجی ہے؟ ان کو بتایا گیا کہ عبدالرحمنؓ بن عوف نے، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا: میرے بعد تمہاری نگہداشت صرف صابرین ہی کریں گے۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف امہات المومنینؓ کی ضروریات کا خصوصی خیال رکھا کرتے تھے اور نبی کریم ﷺکا مذکورہ ارشاد بھی اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سفر حج کے مواقع پر آپؓ امہات المومنینؓ کے ساتھ جاتے تھے، امہات المومنینؓ کے لیے سواری اور پردے کا انتظام کرتے، سفر کے تمام تر انتظامات آپؓ کے ہی ذمے ہوتے، جہاں پڑائو کرنا ہوتا وہاں امہات المومنینؓ کو انتظام اور اہتمام کے ساتھ اتارتے۔ یہ تمام تر اعزاز انہیں ان کی عصمت و عفت کے باعث ہی نصیب ہوا، اور آپؓ یہ تمام ذمہ داریاں ادا کرکے نبی اکرم ﷺکے اس فرمان کہ میرے بعد امہات المومنین کی نگرانی و خبر گیری صرف صابرین ہی کریں گے کے مصداق ٹھیرے۔
دے رہا ہوں۔ اس خوشخبری کے بعد حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے میں مزید تیز ہوگئے۔ انہوں نے چالیس ہزار درہم صدقہ کیے اور پھر دو سو اوقیہ سونا اللہ کی راہ میں خیرات کیا۔ مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے پانچ سو گھوڑے اور دوسرے مجاہدین کے لیے ڈیڑھ ہزار اونٹ فراہم کیے۔ اپنی وفات کے وقت بہت بڑی تعداد میں غلاموں کو آزاد کیا۔ اس وقت اصحابِ بدر میں سے جتنے صحابہ کرام ؓ زندہ تھے ان میں سے ہر ایک کے لیے چار چار سو دینار کی وصیت کی، اس وقت ان صحابہؓ کی تعداد ایک سو تھی۔ ان سب کو وصیت کے مطابق دیا گیا۔ انہوں نے امہات المومنینؓ میں سے ہر ایک کے لیے کثیر رقم کی وصیت کی۔ حضرت عائشہؓ اکثر ان کے لیے دعا کرتی تھیں: اللہ تعالیٰ ان کو چشمہ سلسبیل سے سیراب کرے۔ لیکن اس قدر مال بھی ان کے لیے کسی فتنے کا باعث نہیں بنا اور نہ ہی ان کے رویّے میں کسی قسم کی تبدیلی لا سکا۔ لوگ جب آپؓ کو آپؓ کے غلاموں کے درمیان دیکھتے تو آپؓ کے اور غلاموں کے درمیان تمیز نہیں کرپاتے تھے۔ ایک دن ان کے سامنے کھانا لایا گیا، اس روز وہ روزے سے تھے۔ انہوں نے کھانے کو دیکھ کر بڑی حسرت کے ساتھ کہا: جب مصعبؓ بن عمیر شہید کیے گئے اور وہ مجھ سے بہت بہتر تھے تو ان کو کفن دینے کے لیے ہم لوگوں کو صرف اتنا کپڑا میسر آسکا کہ جب اس سے ان کا سر چھپایا جاتا تو پائوں کھل جاتے، اور جب پائوں چھپائے جاتے تو سر کھلا رہ جاتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو غیر معمولی خوشحالی اور فراخی سے نوارا۔ مجھے اس بات کا ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ہمارے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں نہ دے دیا گیا ہو۔ یہ کہہ کر زار و قطار رونے لگے اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ حضرت نوفلؓ بن ایاس کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف ہم لوگوں کے پاس بیٹھا کرتے تھے، اور وہ کیا ہی اچھے شریکِ مجلس تھے۔ ایک روز ہم ان کے ساتھ کسی جگہ سے واپس ان کے گھر آئے، وہ خود گھر میں گئے، غسل کیا اور واپس ہمارے پاس آکر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے پاس ایک بڑا پیالہ لایا گیا جس میں روٹی اور گوشت تھا۔ جب وہ پیالہ ہم لوگوں کے سامنے رکھا گیا تو حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف رونے لگے، ہم نے ان سے رونے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺکو اس حال میں اپنے پاس بلایا کہ آپ ﷺاور آپﷺ کے گھر والوں نے جَو کی روٹی سے بھی پیٹ نہ بھرا۔ میرے خیال سے آنحضرت ﷺکے بعد ہمارے لیے اتنے عرصے تک اس دنیا میں رہنا بہتر نہیں ہے۔
کہا: اے میرے بیٹے! تم اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردو، میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا ہے کہ میرے اصحابؓ میں سے بعض وہ ہوں گے جنہیں میرے چھوڑ جانے (وفات) کے بعد میرا دیدار نصیب نہ ہوگا (حُبِّ دنیا کی وجہ سے)۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف یہاں سے نکلے اور حضرت عمرؓ سے ملاقات کرکے انہیں حضرت ام سلمہؓ کی بات بتائی۔ یہ بات سن کر حضرت عمرؓ بھی سیدھے حضرت ام سلمہؓ کے پاس پہنچے اور انہیں خدا کی قسم دے کر پوچھا کہ کیا میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو آنحضرت ﷺکی زیارت نصیب نہ ہوگی؟ حضرت ام سلمہؓ نے فرمایا: نہیں، آپؓ ان میں سے نہیں۔ صحابہؓ کی دولت ذاتی راحت وآسائش کے لیے نہ تھی، بلکہ جو جس قدر زیادہ دولت مند تھا اسی قدر اس کا دستِ کرم زیادہ کشادہ تھا۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ کا سلسلہ آنحضرت ﷺکے عہد ہی سے شروع ہوچکا تھا اور وقتاً فوقتاً قومی مذہبی ضروریات کے لیے گراں قدر رقمیں پیش کیں۔ سورہ برات نازل ہوئی اورصحابہؓ کو صدقہ و خیرات کی ترغیب دی گئی تو حضرت عبدالرحمنؓ نے اپنا نصف مال یعنی چارہزار کی خطیر رقم پیش کی، پھر دو دفعہ چالیس چالیس ہزار دینار وقف کیے، اس طرح جہاد کے لیے پانچ سو گھوڑے اور پانچ سو اونٹوں کا انتظام کیا۔ اگرچہ آپؓ کا دسترخوان وسیع تھا، لیکن پُرتکلف نہ تھا۔ کبھی قیمتی اور خوش ذائقہ کھانا سامنے آجاتا تو گزشتہ فقر وفاقہ یاد کرکے آنکھیں پُرنم ہوجاتیں، لباس میں زیادہ تر ریشم کا استعمال تھا، کیونکہ فقر و فاقہ میں بیماری کی وجہ سے رسول اللہ ﷺنے خاص طور پر اجازت دی تھی۔ ایک دفعہ حضرت عبدالرحمنؓ کے صاحبزادے ابوسلمہ ریشمی کرتہ زیب تن کیے ہوئے تھے، حضرت عمرؓ نے دیکھا تو گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس کے چیتھڑے اڑادیے، حضرت عبدالرحمنؓ نے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مجھے اجازت دی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہاں معلوم ہے، لیکن یہ اجازت صرف تمہارے لیے ہے دوسروں کے لیے نہیں۔
ماشاءاللہ بہت اچھا ہے تهوڑی بہت الفاظی ہو نا
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ۔ تقبل اللہ منا ومنکم۔ بہت ہی زبردست کاوش ہے الحمداللہ۔ اللّہ پاک قبول فرمائیں۔
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللّہ تعالیٰ عنہ کے مضمون میں بہت غلطیاں ہیں۔ اکثر جگہوں پر جملے بھی بدل جاتے ہیں۔ اللّہ پاک معاف فرمائیں۔ براۓ مہربانی اسکی درستگی فرما لیں۔
جزاکم اللہ خیراً کثیرا
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ۔ تقبل اللہ منا ومنکم۔ بہت ہی زبردست کاوش ہے الحمداللہ۔ اللّہ پاک قبول فرمائیں۔
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللّہ تعالیٰ عنہ کے مضمون میں بہت غلطیاں ہیں۔ اکثر جگہوں پر جملے بھی بدل جاتے ہیں۔ اللّہ پاک معاف فرمائیں۔ براۓ مہربانی اسکی درستگی فرما لیں۔
جزاکم اللہ خیراً کثیرا