تاریخ کی ابتدا :
عمدة القاری کی جلد 7 میں علامہ بدرالدین عینیؒ تاریخ کی ابتداء کے حوالے سے فرماتے ہیں:
جب زمین پر انسان کی آبادی وسیع ہونے لگی تو تاریخ کی ضرورت محسوس ہوئی ، اس وقت ہبوطِ آدم علیہ السلام سے تاریخ شمار کی جانے لگی، پھر طوفانِ نوح علیہ السلام سے اس کی ابتدا ء ہوئی ، پھر نارِ خلیل سے، پھر یوسف علیہ السلام کے مصر میں وزیر بننے سے، پھر موسی علیہ السلام کے خروج ِمصر سے، پھر حضرت داؤد سے ،ان کے فوراً بعد سلیمان علیہ السلام سے پھر حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے۔ اس کے بعد ہر قوم اپنے اپنے علاقہ میں کسی اہم واقعہ کو سن قرار دیتی تھی، مثلاً قوم ِاحمر نے واقعۂِ تبایعہ کو، قومِ غسان نے سد ِسکندری کو، اہلِ صنعاء نے حبشہ کے یمن پر چڑھ آنے کو سن قرار دیا۔جس طرح ہر قوم نے اپنی تاریخ کا مدار قومی واقعات وخصائص پر رکھا، اسی طرح اہلِ عرب نے بھی تاریخ کے لیے عظیم واقعات کو بنیاد بنایا، چناں چہ سب سے پہلے اہلِ عرب نے حرب ِبسوس (یہ وہ مشہور جنگ ہے جو بکر بن وائل اور نبی ذہل کے درمیان ایک اونٹنی کی وجہ سےچالیس سال تک جاری رہی) سے تاریخ کی ابتدا کی۔ اس کے بعد جنگ ِداحس ( جو محض گھڑدوڑ میں ایک گھوڑے کے آگے نکل جانے پر بنی عبس اور بنی ذبیان کے درمیان نصف صدی تک جاری رہی )پھرجنگ ِغبراء سے، پھر جنگ ِذی قار سے پھر جنگ ِفجار سے تاریخ کی ابتدا کی۔
اس کے بعد حضور ﷺ کے اسلاف میں سے ایک بزرگ کعب کے کسی واقعہ سے سالوں اورتاریخ کا حساب لگاتے رہے ،پھر اصحاب ِالفیل کے واقعہ سے، یہاں تک کہ عام الفیل کی اصطلاح ان کے یہاں رائج ہوئی ۔لیکن اتنی بات واضح ہے کہ رومیوں اور یوناینوں کے دور، بالخصوص سکندراعظم کی فتوحات سے تاریخ کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے جس نے دنیا کے اکثر ملکوں کے حالات کو اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا کہ سلسلہ کے منقطع ہونے کی بہت کم نوبت آئی اور عام طور سے یہیں سے تاریخ زمانہ کی ابتدا سمجھی جاتی ہے۔
کچھ حضرات نے تاریخ کو 3 زمانوں میں تقسیم کیا:
1-قرون اولیٰ، جو ابتدائے عالم سے سلطنت روماتک ہے۔
2-قرون وسطیٰ جو سلطنت روما کے آخر زمانہ سے قسطنطنیہ کی فتح تک ہے۔
3- قرون آخر وقسطنطنیہ کی فتح سے تاحال ہے۔
تاریخ کی اقسام:
تاریخ کی چار اقسام ہیں:
1-تاریخِ عام:
جس میں ساری دنیا کے آدمیوں کا حال بیان کیا جائے۔
2-تاریخِ خاص:
جس میں کسی ایک قوم یا ایک ملک یا ایک خاندان کی سلطنت کا حال بیان کیا جائے۔
3-تاریخِ روایتی:
جس میں راوی کا بیان اس کے مشاہدے کی بنا پر درج کیا گیا ہو۔
4-تاریخِ درایتی:
جس کو آثار قدیمہ ومنقولہ او رعقلی تخمینوں کے ذریعہ ترتیب دیا گیا ہو۔
تاریخ کے ماخذ اوراس کے فوائد:
تاریخ کے ماخذ کو بھی 3حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
1-آثارِ مضبوط:
تمام لکھی ہوئی چیزیں ، مثلاً کتابیں ، یادداشتیں ، دفتروں کاغذات ، پرانے فیصلے، دستاویز وغیرہ ۔
2-آثارِمنقولہ:
زبان زد عام باتیں مثلاً کہانیاں ، نظمیں ، ضرب الامثال وغیرہ۔
3-آثارِقدیمہ:
پرانے زمانے کی نشانیاں ، مثلاً شہروں کے خرابے قلعے، مکانات ، کتبے، تصویریں وغیرہ۔
تاریخ کے فوائد :
مقدمۂِ ابن خلدون میں علامہ ابن خلدون تاریخ کے فوائد پر نظر ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
تاریخ ایک ایسی چیز ہے او رایک ایسا فن ہے جوکثیر الفوائد اور بہترین نتائج پر مشتمل ہے اورتاریخ کا علم ہم کو سابق امتوں کے اخلاق، حالات، انبیاء کی پاک سیرتوں
اور سلاطین کی حکومتوں او ران کی سیاستوں سے روشناس کرتا ہے، تاکہ جو شخص دینی ودنیوی معاملات میں ان میں سے کسی کی پیروی کرنا چاہے تو کر سکے۔
مولانا محمّد میاں مصنف ِتاریخ اِسلام تاریخ کا مقصد اور فائدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : جو حالات موجودہ زمانہ میں پیش آرہے ہیں ان کو گزرے ہوئے زمانے کی حالتوں سے ملا کر نتیجہ نکالنا او راس پر عمل کرنا تاریخ کا مقصد اور فائدہ ہے ۔
تَقوِیم کی تحقیق اور ضرورت:
گزشتہ زمانے کے واقعات وحادثات وغیرہ کو محفوظ رکھنے کے لیے اور آئندہ زمانہ کے لین دین ، معاملات وغیرہ کی تاریخ متعین کرنے کے لیے کلینڈر کی نہایت ضرورت ہے، کیوں کہ تقویم/کلینڈر کے بغیر ماضی کی تاریخ معلوم ہو سکتی ہے، نہ مستقبل کی تاریخ کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
تَقوِیم کی اقسام:
واضح ہو کہ دنیا میں کئی قسم کی تقاویم چلتی ہیں، جن کا دار ومدار 3 چیزیں ہیں :1-سورج،2- چاند اور 3- ستارے۔
اس لیے بنیادی تقاویم تین ہیں : 1-شمسی،2- قَمری،3- نجومی۔
پھر شمسی کلینڈر کی 3 قسمیں ہیں :
1-تاریخِ عیسوی:
تاریخ ِعیسوی ( جس کو تاریخ ِانگریزی اور تاریخ ِمیلادی بھی کہتے ہیں ) شمسی ہے۔ یہ تاریخ حضرت عیسیٰ کی ولادت سے رائج ہے یا نصاری کے بزعم باطل حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے سے شروع ہوتی ہے، اس کی ابتدا جنوری او رانتہا دسمبر پر ہوتی ہے۔
2-تاریخِ بکرمی /ہندی:
ہندی سال کو بسنت کہتے ہیں ۔ اس تاریخ کا دوسرا نام بکرمی ہے۔ مہینے یہ ہیں ، چیت، بیساکھ، جیٹھ، اساڑھ، ساون، بھادوں ، کنوار، کاتک، اگہن، پوس، ماگھ، پھاگن۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سن ہِجری سے تقریباً637 سال پہلے اور سن عیسوی سے 57 سال پہلے سے گجرات کاٹھیاوار میں رائج تھی۔
3-تاریخِ فصلی:
بنیادی طور پر سال شمسی ہے، یہ سن اکبر بادشاہ کے زمانے میں مال گزاری کی وصولیابی اور دوسرے دفتری انتظامات کے لیے وضع کیا گیا تھا۔
ان کے علاوہ او ربھی تقاویم ہیں ،جیسے تاریخ ِرومی ، تاریخ ِالہٰی۔
تاریخِ رومی:
تاریخ رومی اسکندر کے عہدسے مروج ہے، جس پر1975ء میں 2286ء سال شمسی گزر چکے ہیں ، اس کا دوسرا نام تاریخ اسکندری ہے یہ 282 قبل المسیح سے شروع ہوتی ہے ۔تاریخ رومی کے مہینے (جن کی ابتداء مہرجان یعنی کا تک سے ہوتی ہے) یہ ہیں :
1- تشرین اول2-تشرین آخر3- کانون اول4- کانون آخر5- شباط 6-اذار7- نیسان8- ابار9- حزیران10-تموز11-اب12- ایلول
تشرین آخر، نیسان، حزیران، ایلول یہ چار مہینے 30 دن کے باقی سب 31 کے ہوتے ہیں ، سوائے شباط کے، جو28 دن کا ہوتا ہے اور ہر چوتھےسال 29 دن کا ہوتا ہے ۔
تاریخِ الہیٰ:
تاریخ الہیٰ کے مہینے یہ ہیں :
1- فروردین 2- اردی3- بہشت 4-خورداد5- تیر6-ا مرداد7- شہر پو8-مہر9- آبان ذے10- بہمن11- اسفندار
یہ سن جلال الدین اکبر بادشاہ کے جلوس کی تاریخ ( یعنی3 ربیع الثانی992ھ) سے شروع ہوا، اس میں حقیقی شمسی سال ہوتے ہیں ۔
2-تاریخ ِنجومی:
جنتری، شاکھا کے نام سے مشہور ہے اس کے مہینوں کے نام کچھ یوں ہیں :
1-حمل2-ثور3-جوزا4-سرطان5-اسد6-سنبلہ7-میزان8-عقرب9-قوس10-جدی11-دلو12-حوت۔
3-تاریخِ قمَمری:
تاریخ ِقَمری کی ابتدا محرم الحرام سے ہوتی ہے، یہ اِسلامی تاریخ ہے ،جو دیگر تقاویم سے ہر لحاظ سے ممتاز ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
Related
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
احمد عبیداللہ یاسر قاسمی
مضمون بہت عمدہ ہے، اور ماشاءاللہ تفصیل بھی بہت بہترین ہے مکمل قسطوں کا امیدوار ہوں
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
آپ کے مضمون سے مستفید ہواہوں دلی خوشی ہوئی مکمل مضمون کا امیدوار ہوں تاکہ تاریخ سے متعلق مطالعہ تشنہ نہ رہ جائے جزاک اللہ خیرا واحسن الجزا