گزشتہ سے پیوستہ
وہ کتاب جیسے جیسےآگے جا رہی تھی اس کے اندر کی کیفیات بدلتی جا رہی تھیں۔ایک ہلچل سی تھی جو بیدار ہو رہی تھی۔یہ مذہبی عقائد کی رد میں لکھی کتاب تھی۔الحاد کی دنیا میں ایک مقام رکھتی تھی۔کتاب کا اصل حدف اخلاقی بندشیں تھیں جنہیں مذہب اب تک علوم متعارفہ کے طو ر پر پکڑے ہوئے تھااور ان پر اپنے احکام کی بنیاد رکھے ہوئے تھا۔مثلاً عفت و عصمت، کتاب کا اصل حملہ اسی بنیادی اخلاقی عقائد پر تھا۔۔
کتاب کے مطابق یہ جنسی خواہش تو جسم کا ایک طبعی مطالبہ ہے اسے مٹاتے رہنا اور اس کے لئے باضابطہ عقد کا منتظر رہنا ایک فعل عبث ہے،بلکہ صحت اور جنسی قوتوں کی بالیدگی کے لئے سخت مضر ہے۔اس لئے ایسی پابندیوں کو توڑ ڈالو اور مذہب و اخلاق کے گڑھے ہوئے ضابطہ زندگی کو اپنے پیروں سے روند ڈالو۔(ایسے ہی کئی دوسرے عقائد کی رد میں پوری کتاب لکھی گئی تھی)
کوئی پختہ کار مرد ہوتا تو وہ ان باتوں کو محض باتیں سمجھ کر نظر انداز کر دیتا مگر وہ تو سولہ سال کا نوجوان طفل نادان تھا اس سیلاب کی تاب نہ لا سکا۔ایمان و اخلاق کی کشتی یہاں ڈانواں ڈول ہونے لگی۔اب تک جن چیزوں کو جزو ایمان سمجھتا تھا عقل و تنقید کی کسوٹی پر کمزور اور بے حیثیت نکلیں۔
اس کتاب میں "ایمان” پر براہ راست حملہ نہیں کیا گیا تھا مگر ان چیزوں کو کمزور بنا دیا گیا تھا کہ جو ایمان کو قائم رکھتی ہیں۔پروپیگنڈے کا کمال ہی یہی ہے کہ براہ راست حملہ نہ ہو بلکہ اطراف و جوانب سے گولہ باری کرکے قلعے کی حالت مخدوش کردی جائے ۔وہ بھی اس کتاب کو پڑھ کر پوری طرح گرا نہیں تھا مگر سنبھل بھی نہ سکا تھا۔
عبدالقادر ریٹائر ہو چکے تھے 4سال بعد ان کے ایک عزیز چوہدری شفیق الزاماں ان سے ملنے آئے عبدالقادر نے باتوںمیں بتایا کہ فارغ بیٹھے بیٹھے تنگ آگئے ہیں انہیں اب بیٹوں کے واپس آنے کی بھی امید بھی نہ تھی کہ کہاں لکھنؤ اور کہاں سیتا پور ،مگر وہ سیتا پور سے باہر جانا بھی نہیں چاہتے تھے کہ اخراجات اب قابل برداشت نہیں تھے۔شفیق صاحب نے انہیں اپنے علاقے کی منیجری کا کام سونپنے کی ذمہ داری دی پر شروع میں عبدالقادر نے انکار کیا پر اصرار پر آمادہ ہو گئے۔وہ نہیں جانتے تھے کہ لکھنؤ میں ان کا بیٹا شکوک و الحاد کی کس منزل پر گامزن ہے اور گھریلو تربیت کا گریبان کس تیزی سے دھجیوں میں تبدیل کرنے والا ہے۔
وہاں عبدالماجد کو دشمن دیں کی ایک اور کتاب بھی مل گئی ۔
International Library of Famous Liturature کتاب کا نام تھا
یہ کتاب متعدد جلدوں پر مشتمل تھی ۔اس میں ایک جلد قرآن اور اسلام کےذکر پر مشتمل تھی ایک پورے صفحے کا فوٹو "بانی اسلام”کا شامل کیا گیا تھا۔ظاہر ہے تصویر جعلی تھی ،ایک عرب سردار کی جس کے چہرے پر غصیلہ پن نمایا ں اور سج دھج قدیم عرب سرداروں کی تھی اور ہتھیاروں سے سجا لبادہ ۔ عبدالماجد کی تشکیک میں اضافہ ہو گیا۔برسوں کی محنت اور تیاری کا قلعہ مٹی کا ڈھیر بن چکا تھا ۔
رئیسانہ ٹھاٹ کے باوجود ان کی تربیت دینی خطوط پر ہوئی تھی ،آباؤ اجاد سے ایک دینی روایت ساتھ چلی آرہی تھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ صرف 2کتابوں کے مطالعے سے وہ مسلمان سے ملحد بن جائیں گے۔
کفر کے اندھیروں میں اترنا ہی تھا کہ ایسے ہی دوستوں کی تلاش بھی شروع ہوئی ۔کالج کے ایک ساتھی طالب علم محمد حفیظ سید سے یارانہ بڑھا ۔وہ بھی ملحد ہو چکے تھے اور ہندوانہ تصوف و فلسفے کے گردیدہ تھے۔فرق صرف اتنا تھا کہ عبدالماجد ملحد یا منکر اور حفیظ تین چوتھائی ہندو ۔ملاقاتیں بڑھتی گئیں اور ملحدانہ رنگ چڑھتا گیا۔
اسی دوران علامہ شبلی کی کتاب "الکلام”منظر پر آئی، عبدالماجد نے مطالعہ کیا ۔ان کے مطابق کچھ خامیاں تھیں سو تنقید کے لئے قلم اٹھا لیا ۔انہیں تو تنقید یکسر عقائد اسلامی،وجود باری تعالٰی ،نبوت اور ضرورت مذہب پر کرنا تھی ۔الکلام تو ایک آڑ تھی۔
ان دنوں ایک رسالہ”الناظر”کے نام سے لکھنؤ سے شائع ہوا کرتا تھا۔اس کے ایڈیٹر ظفر الملک کو شبلی سے کد تھی ، عبدالماجدکو اس سے بہتر تنقید کے لئے دوسرا کوئی رسالہ دکھائی نہ دیا ۔رسالے نے بھی خوش آمدید کہا۔ عبدالماجدکا ایک طویل مقالہ 6اقساط میں شائع ہوا۔یہ قسطیں ایک طالب علم کے نام سے شائع کروائیں۔(شبلی سمجھتے رہے کہ یہ حرکت مولوی عبدالحق کی ہیں،مگر یہ راز بعد میں کھل گیا۔)
مضامین کی ترتیب و تسوید میں عبدالماجد کی عقل اس کی امام تھی۔مذہب کو تو وہ خیر باد کہہ چکے تھے اب عقل ہی ان کی رہ نما تھی جو بھی مذہبی عقیدہ ان کی عقل کے معیا ر پر پورا نہ اترتا وہ بقول عبدالماجد ناقص تھا،جبکہ مذہبی جماعتوں کے وہ عقل ناقص ہے جو کسی مذہبی عقیدے کے مخالف ہو۔
ان مضامین میں عبدالماجد کا لہجہ کڑوا،اور مسموم تھا ۔حتٰی کہ مذہب و سائنس کے اختلافات کی تفصیل درج کرنے کے بعد اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ مذہب اب چند روزہ مہمان ہے۔ جوں جوں سائنس کی تعلیم عام ہوتی جائے گی اسی نسبت سے مذہب کا اثر بھی زائل ہوتا جائے گا۔
ان تمام مضامین کا مقصود دراصل مذہب کو مجموعہ توہمات ظاہر کرنا تھا۔ان کا خیال تھا کی اکثر مسائل میں بانیان مذہب غلطیوں اور غلط فہمیوں کا شکار رہے۔ان کا لہجہ یہی بتاتا تھا کی وہ تعلیمات مذاہب کو اللہ کی تعلیم نہیں بلکہ "خود ساختہ انبیاء”سمجھتا تھا۔
عبدالماجد کےان مضامین کا ردّعمل بھی ہوا۔جن کا خلاصہ یہ ہے کہ استدلال نہایت سطحی ہے، قرآن کریم کی بعض آیات کو سمجھنےمیں ٹھوکر کھائی ہیں۔مصنف کا قلم اندھے کی لکڑی کی طرح ہے جو چاروں طرف گھوم رہی ہے کسی کے بھی لگ جائے۔
عبدالماجدکا الحاد اپنی جگہ لیکن "الکلام” پر تنقیدی اقساط اور دوسرے کئی مضامین کے ذریعے وہ اپنے آپ کو ایک ادیب تسلیم کروا چکے تھے۔
بعض ادیبوں سے ان کے تعلقات بھی استوار ہو چکے تھے جو ان کے خاندان سے واقف تھے انہیں دکھ ہوا کرتا تھا کہ کیسے اشرف خاندان کا چراغ کن ہواؤں کے سامنے ہے۔
ان کی تہجد گزار ماں کو جب علم ہوا تو دل پر قیامت گذر گئی۔وہ جو دوسروں کو نماز و روزے کی تلقین کیا کرتی تھیں ان کا اپنا بیٹا منکر نماز و روزہ تھا۔ عبدالقادر صاحب وقت سے پہلے بوڑھے ہو چکے تھے۔سب نے خوب سمجھایا ،پر سب بے سود، عبدالماجدکا مطالعہ اتنا وسیع تھا ان کا الھاد بھی استدلال پر مبنی تھا۔منطق و فلسفہ اس کے خاص مضامین تھے ۔کوئی اس سے نہ جیت سکا۔کوئی قائل نہ کر سکا۔سب نے اسے اس کے حال پر چھوڑ کر دعاؤں کا سہارا پکڑ لیااور معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا۔ان کی گمراہی کسی خاص وقت کا انتظار کررہی تھی۔
عبدالماجد کی شدت پسند ی کا یہ حال تھا کہ کالج کے سالانہ امتحان کے فارم میں مذہب کے فارم میں اسلام کے بجائے "ملحد”لکھنا باعث فخر سمجھا
انٹر کے بعد اسی کیتگ کالج میں بی اے میں داخلہ لیا ۔مضامین وہی خاص تھے،عربی اور فلسفہ ۔مذہب کی مخالفت کے لئےفلسفہ ہی بڑا سہارا ہو سکتا ہےجو تمام تر "عقل”پر تکیہ کرتا ہے۔کالج کی لائبریری میں جتنی کتابیں فلسفے کی تھیں سب پڑھ ڈالیں۔ملحد وں و نیم ملحدوں کی کتابوں کے ساتھ وہ کتابیں بھی سامنے آئیں جو فلسفے کی تھیں۔نفسیات کے موضوع پر تھیں،بظاہر مذہب سے تعلق نہ رکھتی تھیں مگر عبدالماجد نے انسانی نفسیات کی بعض خرابیوں کو پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی ذات مبارک پر چسپاں کرکے اپنے مطلب کے نتائج اخذ کئے۔
جاری ہے
بی بی جی ۔ ميں نے اس سے قبل بھی عرض کيا تھا کہ آپ جو کھاتی ہيں مجھے بھی بتا ديجئے ۔ اب ديکھئے نا ۔ ميں اسے پڑھتے پڑھتے تھک گيا ہوں اور ابھی يہ جاری ہے ۔ اگر ميں بھی وہی کچھ کھانا شروع کر دوں جو آپ کھاتی ہيں تو پھر شکوے کا جواز نہيں رہے گا ۔ ايک بات اور بتا ديجئے کہ يہ دريا بادی ہے يا کہ دريا آبادی ؟
میں نے پہلے بھی عرض کی کہ شوہر کا بھیجہ اور کچھ نہیں
ویسے مجھے تاریخ سے لگاؤ ہے مسلم غیر مسلم شخصیات اور کسی خاص شعبے سے منسلک ہونے کا شوق نہیں
سوانحی ھالات پڑھ پڑھ کر سوچا کہ کچھ آپ لوگوں سے بھی سشیئر کر سکوں
اگر آپ لوگوں کو پسند آیا تو اس تحریر کے بعد اس شخصیت کا نمبر ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور معجزہ بھی دکھایا
معجزہ کی صورت میں اس نے 2 چاند آسمان پر دکھلا دیئے جو اس کی موت کے بعد بھی دکھائی دئے
بس شرط یہ ہے کہ وقت اور زندگی اور ساتھ آپ لوگوں کا رہے
موصوف جن پر آج کل تحریر پڑھ رہے ہیں
وہعبدالماجد دریا بادی ہی ہیں
ان پر کچھ لنک دے رہی ہوں دیکھئے گا ضرور
اور میں ان پر مضمون ان پر لکھی سوانحوں سے اخذ کر رہی ہوں
مجھے جو جو شخسیات پسند ہیں
ان پر مزید مضامین آئیں گے
انشاء اللاہ
http://indianmuslimlegends.blogspot.com/2011/03/70-abdul-majid-daryabadi.html
http://islamicbookslibrary.wordpress.com/2011/09/03/aap-beeti-by-shaykh-abdul-majid-daryabadi-r-a/
بی بی جی ۔ رحم کيجئے رحم ۔ يہ بھيجا کھانا چھوڑ ديجئے ۔ اور يہ سب کچھ اس عمر ميں نے پڑھنا شروع کر ديا تو ختم کب کروں گا ۔ اب تو ميرے رختِ سفر باندھنے کے دن ہيں ۔ پہلے آپ نے اعوذ باللہ پڑھنے کی ھدائت کی تھی تو اس کا بہت ورد کرتا ہوں مگر وہ شيطان کا بچہ شيطان جان نہين چھوڑتا
آپ کو میری تحریریں پسند نہیں آرہی یعنی
تو ٹھیک ہے یہی ایک جلد ختم ہونے والی ہے شائد 1 ہفتہ اور 2 اقساط رہ گئی ہیں
پھر شامل نہیں کروں گی
کہ کوئی پڑھنا بھی تو نہیں چاہتا شائد
:p
ميں نے پہلے بھی بتايا تھا کہ ميرا دل بہت چھوٹا ہے ۔ مجھے دھمکی نہ ديا کريں ۔ اگر مجھے آپ کی تحارير اچھی نہ لگيں تو ميں آپ کے بلاگ کا کبھی رُخ نہ کروں ۔ اچھا يہ لڑائی بھڑائی چھوڑيئے اور بتايئے کہ بچی کو اسکول داخل کرايا ہے يا نہيں ابھی
چچا جان دل بڑا کر لیجئے عمر میں بھی تو بڑے ہیں۔
دھمکیاں نہیں دیتی سچی سچی کہتی ہوں کسی دن بھی غائب ہو جوؤں گی
بلاگ کا رخ اکثر کرتے ہیں نہیں کہ جیسے بھول گئے ہوں۔
لڑائی کرنا مجھے آتی ہی نہیں (میرے شوہر میری اس بات سے نجانے کیوں متفق نہیں)
بچی کا داخلہ ان شاءاللہ اگلے ہفتے متوقع ہے
لڑائی کرنا مجھے آتی ہی نہیں ۔ میرے شوہر میری اس بات سے نجانے کیوں متفق نہیں
ہا ہا ہا ہا ہا ہی ہی ہی ہی ہی
شکر ہے ۔ کوئی بات تو بغير غصے والی کی
بچی کا داخلہ ان شاءاللہ اگلے ہفتے متوقع ہے
اب کچھ دنوں بعد ميرے ساتھ ساتھ بچی کے سوال بھی برداشت کرنا پڑيں گے ۔ اگر بچی کے ساتھ غصہ کھايا تو مجھے کراچی آنا پڑے گا سزا دينے
اور ہاں دل تو بچوں کا بہت بڑا ہوتا ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ چھوٹا ہوتا جاتا ہے
اس میں ہنسنے والی کیا بات تھی؟
جویریہ کے داخلہ کی کاروائی منکگل کو متوقع ہے جس کے لئے ان کے والد صاحب سے چھٹی کی درخواست کی گئی ہے
دیکھئے موصوف کیا کرتے ہیں ۔
بچی کےداخلہ تیسٹ 23 مارچ کو ہو گا
پھر اس کا نتیجہ کا انتظار رہے گا
مجھے سوالات کے جوابات دیے کی عادت سی ہے
اس کا جواب اور ديگر باتيں ای ميل ميں لکھ کر بھيج رہا ہون ۔ کچھ ذاتی نوعيت کی ہيں
جی آپ کی میل دیکھ لی ہے تفصیلی جواب کل دے سکوں گی
بس ایک تصیح یہ ہے کہ 23 فروری نہیں 23 مارچ کو نتیجہ آئے گا
آپ تو پریشان ہوگئیں یہی تحریر تو دلچسپ لگی جاری رکھیے
بات تو پریشانی کی ہی ہے یعنی اس سے پہلے کوئی تحریر آپ کو پسند نہیں آئی؟