قرآن کہانی:حضرت نوح عليہ السلام (حصہ اوّل)
مورخين ومفسرين نے لكھا ہے كہ نوح كا نام ” عبد الغفار ”يا عبد الملك”يا”عبدالاعلى ” تھااور ”نوح” كا لقب انھيں اس لئے ديا گيا ہے ، كيونكہ وہ سالہا سال اپنے اوپر يا اپنى قوم پر نوحہ گريہ كرتے رہے۔آپ كے والد كا نام ”لمك ”يا” لامك ”تھا اور آپ كى عمر كى مدت ميں اختلاف ہے ،بعض روايات ميں 1490 اور بعض ميں 2500سال بيان كى گئي ہے ، اور ان كى قوم كے بارے ميں بھى طویل عمريں تقريباً300سال تك لكھى گئي ہيں ،جوبات مسلم ہے وہ يہ ہے كہ آپ نے بہت طویل عمر پائي ہے، اورقرآن كى صراحت كے مطابق آپ950 سال اپنى قوم كے درميان رہے ( اور تبليغ ميں مشغول رہے)۔
نوح كے تين بيٹے تھے ”حام””سام” يافث ”اور مو رخين كا نظريہ يہ ہے كہ كرہ زمين كى اس وقت كى تمام نسل انسانى كى بازگشت انھيں تينوں فرزندوں كى طرف ہے ايك گروہ ”حامي” نسل ہے جو افريقہ كے علاقہ ميں رہتے ہيں دوسرا گروہ ”سامى ”نسل ہے جوشرق اوسط اور مشرق قريب كے علاقوں ميں رہتے ہيں اور ”يافث ” كى نسل كو چين كے ساكنين سمجھتے ہيں۔
950سال تبليغ اور 7مومن
نوح عليہ السلام كا ايك اور بيٹا بھى تھا جس كا نام ”كنعان ”تھا جس نے باپ سے اختلاف كيا، يہاں تك كہ كشتى نجات ميں ان كے ساتھ بيٹھنے كے لئے بھى تيار نہ ہوا اس نے برے لوگوں كے ساتھ صحبت ركھى اور خاندان نبوت كے ا قدار كو ضائع كرديا اور قرآن كى صراحت كے مطابق آخر كاروہ بھى باقى كفار كے مانند طوفان ميں غرق ہوگيا۔اس بارے ميں كہ اس طويل مدت ميں كتنے افراد نوح عليہ السلام پر ايمان لائے ،اور ان كے ساتھ كشتى ميں سوار ہوئے ،اس ميں بھى اختلاف ہے بعض نے 80اور بعض نے 7افراد لكھے ہيں۔
نوح عليہ السلام كى داستان عربى اور فارسى ادبيات ميں بہت زيادہ بيان ہوئي ہے ، اور زيادہ تر طوفان اور آپ كى كشتى نجات پر تكيہ ہوا ہے۔ نوح عليہ السلام صبر وشكر اور استقامت كى ايك داستان تھے ، اور محققين كا كہنا ہے كہ وہ پہلے شخص ہيں جنھوں نے انسانوں كى ہدايت كےلئے وحى كى منطق كے علاوہ عقل واستدلال كى منطق سے بھى مددلى (جيسا كہ سورت نوح كى آيات سے اچھى طرح ظاہر ہے ) اور اسى بناء پر آپ اس جہان كے تمام خدا پرستوں پر ايك عظيم حق ركھتے تھے۔
قرآن مجيد پہلے مرحلے ميں اس عظيم دعوت كو بيان كرتے ہوئے كہتا ہے ”ہم نے نوح كو ان كى قوم كى طرف بھيجا اور اس نے انھيں بتايا كہ ميں واضح ڈرانے والا ہوں”۔ سورت ہود آيت 25
اس كے بعد اپنى رسالت كے مضمون كو صرف ايك جملہ ميںبطور خلاصہ بيان كرتے ہوئے كہتا ہے ميرا پيغام يہ ہے كہ ” اللہ ”كے علاوہ كسى دوسرے كى پرستش نہ كرو پھر بلا فاصلہ اس كے پيچھے اسى مسئلہ انذاراور اعلام خطر كوتكرار كرتے ہوئے كہا :”ميں تم پر درد ناك دن سے ڈرتا ہوں ”۔سورت ہود آيت 26
اب ہم ديكھيں گے كہ پہلا ردّ عمل اس زمانے كے طاغوتوں ،خود سروں اور صاحبان زرو زوركا اس عظيم دعوت اور واضح اعلام خطركے مقابلے ميں كيا تھامسلماََسوائے كچھ بيہودہ اور جھوٹے عذر بہانوں اور بے بنياد استدلالوں كے علاوہ كہ ان كے پاس كچھ بھى نہيں تھا جيساكہ ہر زمانے كے جابروں كے طريقہ ہے۔
انہوں نے حضرت نوح عليہ السلام كى دعوت كے تين جواب دئے : ”قوم نوح كے سردار اور سرمايہ داركا فرتھے انہوں نے كہا: ہم تو تجھے صرف اپنے جيسا انسان ديكھتے ہيں”سورت ہود آيت27
حالانكہ اللہ كى رسالت اور پيغام تو فرشتوں كو اپنے كندھوں پر لينا چاہيئے نہ كہ ہم جيسے انسانوں كو ،اس گمان كے ساتھ كہ انسان كا مقام فرشتوں سے نيچے ہے يا انسان كى ضرورت كو فرشتہ انسان سے بہتر جانتا ہے۔
كسى رہبر اور پيشوا كى حيثيت اور اس كى قدر ورقيمت اس كے پيروكاروں سے پہچانى جاتى ہے اور اصطلاح كے مطابق صاحب مزار كو اس كے زائرين سے پہچانا جاتا ہے جب ہم تمہارے پيروكاروں كو ديكھتے ہيں تو ہميں چند ايك بے بضاعت،گمنام،فقير اور غريب لوگ ہى نظر آتے ہيں جن كا سلسلہ روز گار بھى نہايت ہى معمولى ہے تو پھر ايسى صورت ميں تم كس طرح اميد كر سكتے ہو كہ مشہور و معروف دولت مند اور نامى گرامى لوگ تمہارے سامنے سر تسليم خم كرليں گے؟
ہم اور يہ لوگ كبھى بھى ايك ساتھ نہيں چل سكتے ہم نہ تو كبھى ايك دستر خوان پر بيٹھے ہيں اور نہ ہى ايك چھت كے نيچے اكھٹے ہوئے ہيں تمہيں ہم سے كيسى غير معقول توقع ہے۔
يہ ٹھيك ہے كہ وہ اپنى اس بات ميں سچے تھے كہ كسى پيشوا كو اس كے پيروكاروں سے پہچانا جاتا ہے ليكن ان كى سب سے بڑى غلطى يہ تھى كہ انھوں نے شخصيت كے مفہوم اور معيار كو اچھى طرح نہيں پہچانا تھا۔ان كے نزديك شخصيت كا معيارمال و دولت لباس اور گھر اور خوبصورت اور قيمتى سوارى تھا ليكن طہارت،تقوى ،حق جوئي جيسے اعلى انسانى صفات سے غافل تھے جو غريبوں ميں زيادہ اور اميروں ميں كم پائي جاتى ہيں۔
طبقاتى اونچ نيچ بدترين صورت ميں ان كى افكار پر حكم فرما تھي۔ اسى لئے وہ غريب لوگوں كو”اراذل”، ذليل سمجھتے تھے۔
اور اگر وہ طبقاتى معاشرے كے قيد خانے سے باہر نكل كر سوچتے اور باہر كى دنيا كو اپنى آنكھوں سے ديكھتے تو انھيں معلوم ہوجاتا كہ ايسے لوگوں كا ايمان اس پيغمبر كى حقانيت اور اس كى دعوت كى سچائي پر بذات خود ايك دليل ہے۔
اور يہ جو انہيں ”بادى الرا ى ”(ظاہر بين بے مطالعہ اور وہ شخص جو پہلى نظر ميں كسى چيز كا عاشق اور خواہاں ہوتا ہے ) ;كا نام ديا ہے حقيقت ميں اس بناء پر ہے كہ وہ ہٹ دھرمى اور غير مناسب تعصبات جو دوسروں ميں تھے وہ نہيں ركھتے تھے بلكہ زيادہ تر پاك دل نوجوان تھے جوحقيقت كى پہلى كرن كو جوان كے دل پر پڑتى تھى جلدى محسوس كرليتے تھے وہ اس بيدارى كے ساتھ جو كہ حق كى تلاش سے حاصل ہوتى ہے ،صداقت كى نشانياں،انبياء كے اقوال وافعال كا ادراك كرليتے تھے۔ سورت ہود آيت 27
ان كاتيسرا اعتراض يہ تھا كہ قطع نظر اس سے كہ تو انسان ہے نہ كہ فرشتہ ، علاوہ ازيں تجھ پر ايمان لانے والے نشاندہى كرتے ہيں كہ تيرى دعوت كے مشتملات صحيح نہيں ہيں ”اصولى طور پر تم ہم پر كسى قسم كى برترى نہيں ركھتے كہ جس كى بناء پر ہم تمہارى پيروى كريں ”۔ سورت ہود آيت 27
جاری ہے
پنگ بیک: حضرت نوح عليہ السلام (حصہ اوّل) | Tea Break
ماشاء اللہ بہت خوب لکھا ہے ۔
ميری آپ جيسی بيٹيوں کيلئے دعا ہے کہ اللہ سدا صحتمند ۔ خوش اور خوشحال رکھے
آپ کی ناراضگی کا جواب ميں نے اپنے بلاگ پر دے ديا ہے جسے وہيں جا کر پڑھنے کا تردد کرنا پڑے گا
http://www.theajmals.com/blog/2012/01/%D8%A2-%D8%A8%D9%8A%D9%84-%D9%85%D8%AC%DA%BE%DB%92-%D9%85%D8%A7%D8%B1/#comments
جواب آپ کو ارسال کر دیا گیا ہے وہیں پر :پ